چینی حکومت کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گذشتہ چھ عشروں کی نسبت 2022 میں ملکی آبادی میں سب سے زیادہ کمی واقع ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ چین کی مرکزی اور علاقائی حکومتیں زیادہ بچوں کی پیدائش کے ذریعے آبادی کا توازن بحال کرنے کے لیے ملازمت پیشہ خواتین کو معاوضہ اور مراعات دینے کو تیار ہیں لیکن بہت سی خواتین اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔
بیجنگ میں ای کامرس کے شعبے سے منسلک 32 سالہ نینسی جیسی مائیں اس بات کے لیے قائل نہیں ہو رہیں کیونکہ ملازمت کے ساتھ ان کے پاس اتنا وقت اور توانائی نہیں کہ زیادہ بچوں کی اچھی پرورش کی جا سکے، اس کے علاوہ اخراجات بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
نینسی کے مطابق حکومت ماؤں یا خاندانوں کو جتنی بھی مراعات دے، کم بچے پیدا کرنے کا رجحان ناگزیر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں یہ انسانوں کا فطری ضابطہ ہے۔ ہم جتنے زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں اتنی ہی خواہش کم ہوتی ہے۔ یہ ذاتی انتخاب ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر حکومت مجھے زیادہ پیسے دے یا بچوں کے لیے بہتر ماحول کی پیشکش کرے تو میں زیادہ بچوں کا انتخاب کر لوں گی۔ جب آپ کا انفرادی شعور مضبوط ہو اور آپ کی زندگی میں انتخاب کرنے کے زیادہ مواقع ہوں تو آپ انتخاب کر سکتے ہیں کہ بچے پیدا یا مزید بچے پیدا نہ کریں۔‘
ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ چین میں شرح پیدائش کم رہی تو دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک کی معاشی ترقی رک سکتی ہے۔
بیجنگ کی نینسی پر خاندان کا بھی دباؤ ہے کہ وہ زیادہ بچے پیدا کرنے کی سرکاری مراعات سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے خاندان کو بڑھائیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا: ’مجھ سمیت بہت سے لوگ مزید بچے پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سکول والے اضلاع میں گھروں کی قیمتیں حالیہ سالوں میں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔‘