اسلام آباد کی بینکنگ کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس مقدمے میں ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ موخر کر دیا ہے۔
بینکنگ کورٹ میں بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ہائی کورٹ سے ریلیف مل گیا ہے، ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر ریلیف دیا ہے اور 22 تاریخ تک اس عدالت کو عبوری ضمانت سے متعلق فیصلہ دینے سے روک دیا ہے۔
اس پر عدالت کی جج نے کہا کہ ’آرڈر کہاں ہے؟ آرڈر کاپی دیں گے تو پھر دیکھیں گے۔ جس کے جواب میں وکیل نے کہا کہ ہائی کورٹ کا آرڈر ابھی آ جائے گا۔
جج رخشندہ شاہین نے کہا کہ ’ہائی کورٹ کا آرڈر آ جائے تو ہم دیکھ لیں گے، مجھے فیصلے کی کوئی کاپی ابھی موصول نہیں ہوئی، آپ فیصلے کی کاپی فراہم کر دیں، میں تصدیق کروا لیتی ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہائی کورٹ نے آرڈر میں ہمیں فیصلے سے روکا بھی ہے کہ نہیں۔
اس موقع پر سپیشل پراسیکیوٹر کی جانب سے عمران خان سے متعلق میڈیکل بورڈ بنانے کی درخواست دائر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست پر دلائل سن لیں۔‘
عدالت نے درخواست کی کاپی عمران خان کے وکیل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہائی کورٹ نے ہمیں ضمانت کی درخواست پر فیصلہ کرنے سے روکا ہوا تو پھر یہ درخواست دیکھ لیں گے، اگر فیصلے سے نہیں روکا گیا تو پھر ضمانت کی درخواست پر فیصلہ دوں گی۔‘
تاہم وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے پر وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ عدالت میں پیش کر دیا جس پر عدالت نے عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ موخر کرتے ہوئے سماعت 18 فروری تک کے لیے ملتوی کر دی۔
اس کے علاوہ عدالت نے تین ملزمان طارق شفیع، فیصل مقبول اور حامد زمان کی پانچ، پانچ لاکھ روپے مالیت کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرنے کا حکم سنا دیا۔
دوران سماعت ایف آئی اے کی جانب سے کہا گیا کہ ابھی ملزمان کی گرفتاری کی ضرورت نہیں ہے جس پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں سیف اللہ خان نیازی، عامر محمود کیانی، سردار اظہر اور سید یونس کی جانب سے درخواست ضمانت قبل از گرفتاری واپس لے لی گئی۔
اس سے قبل بدھ کو سماعت شروع ہوئی تو عدالتی عملے نے کہا کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کمرہ عدالت میں رش نہ لگایا جائے اور ایک، ایک وکیل پیش ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سماعت شروع ہونے پر جج رخشندہ شاہین نے میڈیا کو بھی کمرہ عدالت س باہر نکلنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے لوگ بھی باہر چلے جائیں۔ جس پر میڈیا کی جانب سے پوچھا گیا کہ کیا یہ اِن کیمرہ سماعت ہے؟
اس پر جج رخشندہ شاہین نے دوبارہ کہا کہ ’آپ لوگ باہر نکل جائیں۔‘
دوران سماعت وکلا کی جانب سے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی اور عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا، جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر عمران خان کے وکلا نے درخواست ضمانت پر دلائل دینا شروع کیے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ’پہلی بار بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے درخواست گزار کون ہے۔ عمران خان 70 سال سے زائد عمر کے آدمی ہیں، وہ ورزش کی وجہ سے سپر فٹ ضرور ہیں مگر عمر 70 سال سے زائد ہے، کسی نوجوان کو بھی گولی لگے تین مہینے ریکوری میں لگتے ہیں۔‘
عمران خان کے وکیل نے عمران خان کے ایکسرے عدالت میں پیش کرتے ہوئے عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی میں تین ہفتوں کی مہلت مانگ لی اور کہا کہ ’ہم سب ڈاکٹر بنتے ہیں تو یہ ایکسرے بھی دیکھ لیں، ہم صرف تین ہفتے مانگتے ہیں کہ وہ سپورٹ کے بغیر کھڑے ہوسکیں، اگر ہماری استدعا نہیں سننی تو لکھنا ہو گا ہمارا میڈیکل درست نہیں، یہ بھی لکھنا ہو گا کہ عمران خان کو گولیاں نہیں لگیں۔‘
بعد ازاں غیرملکی ذرائع ابلاغ کے ساتھ منسلک صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ’موجودہ حکومت عوام کو مہنگائی تلے کچلنے کے لیے فنانس بل لا رہی ہے۔‘
اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے صدر علوی سے اس حوالے سے آرڈیننس جاری کرنے کی درخواست کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا، اب حکومت منی بل پارلیمنٹ سے پاس کرائے گی۔‘
نامہ نگار فاطمہ علی کے مطابق لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آئین کے تحت صدر اسے (فنانس بل) منظور کرنے سے انکار نہیں کر سکتے، تاہم ’پی ٹی آئی کے سینیٹرز اس بل کی مخالفت کریں گے کیونکہ یہ عوام کے خلاف اٹھایا گیا قدم ہے۔‘
’میں نے اپنی پارٹی کے سینیٹرز کو ہدایت کی ہے کہ اس کی مخالفت میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی جلد ہی جیل بھرو تحریک شروع کرے گی اور 48 گھنٹوں میں اس کا حتمی لائحہ عمل سامنے آئے گا۔‘
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا ایک مشکل فیصلہ تھا ہماری پارٹی میں کئی امیدوار تھے۔ مگر عثمان بزدار کو ہٹا دیتے تو نیا وزیر اعلیٰ نہ بنا پاتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب ملک میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو عدالتوں کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔‘