امریکی بائیڈن انتظامیہ نے جمعے کو روس پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ یوکرین کے لیے دو ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے نئے پیکج کی منظوری دی ہے، جبکہ عالمی مالیاتی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے روس کی رکنیت معطل کر دی۔
24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کا ایک سال مکمل ہونے کے موقعے پر جی سیون ممالک کے رہنماؤں نے یوکرین کے صدروولودی میر زیلنسکی کے ساتھ ورچوئل ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا ’یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونے، ضرورت کے وقت میں ممالک اور لوگوں کی حمایت کرنے اور قانون کی حکمرانی پر مبنی بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھنے میں ہماری یکجہتی کبھی نہیں ڈگمگائے گی۔‘
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی مالیاتی جرائم پر نظر رکھنے والے ادارے ایف اے ٹی ایف نے جمعے کو روس کی رکنیت معطل کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین میں ماسکو کی جنگ اس تنظیم کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
ایف اے ٹی ایف ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے عالمی معیارات طے کرکے اور یہ جانچتا ہے کہ آیا ممالک ان کا احترام کرتے ہیں یا نہیں۔
ایف اے ٹی ایف کے صدر راجہ کمار نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے جب ایف اے ٹی ایف کے کسی رکن کو معطل کیا گیا ہے۔ ’روس کو مؤثر انداز میں تنظیم سے الگ کر دیا گیا ہے۔‘
برطانیہ نے جمعے کو ایسی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جو روس کو میدان جنگ کا سامان فراہم کرتی ہیں۔
حکام نے کہا کہ وہ جنگ میں استعمال ہونے والی تمام اشیا جیساکہ طیارے کے پرزے، ریڈیو آلات اور ہتھیاروں کے الیکٹرانک پرزے روس کو برآمد کرنے پر پابندی عائد کریں گے۔
برطانیہ کے محکمہ خزانہ کے سربراہ جیریمی ہنٹ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں نہیں لگتا کہ یہ کام کسی بھی طرح سے کیا گیا ہے۔‘
امریکہ کی یوکرین کے لیے امداد
پینٹاگون کی جانب سے اعلان کردہ حالیہ پیکج میں مزید گولہ بارود، الیکٹرانک وار فیئر ڈیٹیکشن آلات اور روس کے بغیر پائلٹ کے نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے دیگر ہتھیار اور متعدد اقسام کے ڈرون شامل ہیں، جن میں اپ گریڈڈ سوئچ بلیڈ 600 کامی کاز ڈرون بھی ہیں۔
خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ ’آنے والا وقت مشکل ہوسکتا ہے لیکن ہمیں اس بارے میں واضح نظر رکھنی چاہیے کہ یوکرین میں کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ظلم اور افراتفری کی دنیا، قوانین اور حقوق کی دنیا کی جگہ نہ لے سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمعہ کو اے بی سی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ یوکرین کو ایف 16 لڑاکا طیارے بھیجنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یوکرینی صدر امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ان طیاروں کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ یوکرین کو مستقبل قریب میں اس ہتھیار کی ضرورت نہیں۔
جوبائیڈن نے کہا کہ ہماری فوج کے مطابق اب ایف 16 طیارے فراہم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ’میں فی الحال اس سے انکار کر رہا ہوں۔‘
دریں اثنا وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ 200 سے زائد افراد اور اداروں پر نئی پابندیوں سے ’روس کی معیشت مزید خراب اور یوکرین کے خلاف جنگ کرنے کی اس کی صلاحیت کم ہوگی۔ بائیڈن انتظامیہ روسی برآمدات کو مزید کم کرے گی اور امریکہ کو درآمد کی جانے والی کچھ روسی مصنوعات پر ٹیکس بڑھائے گی۔
جمعے کو امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے عائد کی جانے والی نئی پابندیوں نے روسی کمپنیوں، بینکوں، مینوفیکچررز اور افراد کو متاثر کیا ہے۔
ان پابندیوں کا مقصد ان اداروں کو نشانہ بنانا ہے جنہوں نے روس کو پہلے مرحلے سے بچنے میں مدد کی۔ امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے ’اب تک کی سب سے اہم پابندیوں کے اقدامات‘ سے روس کے دھاتوں اور کان کنی کے شعبے بھی متاثر ہوں گے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ اور تجارت کے ساتھ ساتھ امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر نے بھی جمعے کو روس پر دباؤ بڑھانے کے منصوبے جاری کیے ہیں۔
ان اقدامات سے روسی فوج کے ایک ہزار219 ارکان پر ویزا پابندیاں عائد ہوں گی، روسی مصنوعات جیسا کہ دھات پر محصولات میں اضافہ ہوگا، جس کی مالیت تقریبا 2.8 ارب ڈالر ہے، اور چین سمیت تقریبا 90 روسی اور تیسرے ملک کی کمپنیوں کو پابندیوں سے بچنے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
دنیا کی نصف سے زیادہ معیشت کی نمائندگی کرنے والے 30 سے زیادہ ممالک پہلے ہی روس پر پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔ روس سب سے زیادہ پابندیوں کی زد میں آنے والا ملک بن گیا۔
پابندیوں کی وجہ سے روسی تیل اور ڈیزل کی قیمتوں کی حد مقرر کی گئی ہے، روسی مرکزی بینک کے فنڈز منجمد کر دیے گئے ہیں اور ’سوئفٹ‘ تک رسائی کو محدود کر دیا گیا ہے، جو عالمی مالیاتی لین دین کا سب سے بڑا نظام ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے تقریبا 2500 روسی کمپنیوں، سرکاری عہدیداروں، اشرافیہ اور ان کے اہل خانہ پر براہ راست پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
ان پابندیوں کے باعث انہیں اپنے امریکی بینک اکاؤنٹس اور مالیاتی منڈیوں تک رسائی حاصل نہیں۔ وہ امریکی شہریوں کے ساتھ کاروبار، امریکہ کا سفر اور دیگر سرگرمیاں نہیں کر پا رہے۔