یوکرین پر روسی حملے کو آج ایک سال ہوچکا ہے، اس موقع پر عالمی قیادت جی سیون اجلاس میں مختلف انداز میں اپنا موقف پیش کرے گی جبکہ امریکہ کی جانب سے روس کی مدد کرنے والوں کے خلاف نئی پابندیوں کے اعلان کا بھی امکان ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن جی سیون ممالک کے رہنماؤں سے جمعے کو ورچوئلی ملاقات کریں گے اور دیگر ممالک بھی روس، یوکرین تنازع پر بات کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر تنازع کے ایک سال گزرنے پر روس کی جنگ میں مدد کرنے والوں کے خلاف نئی پابندیاں عائد کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کیرین جون پیری نے کہا: ’جی سیون روس کے خلاف مضبوط اور متحد جواب کے لیے ایک سہارا بن چکا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جمعے کو رہنما اس بات پر تبادلہ خیال کریں گے کہ ’ہم کس طرح یوکرین کی حمایت جاری رکھیں گے‘ اور روس پر ایک سال قبل یوکرین پر حملے کے موضوع پر مزید دباؤ ڈال سکیں گے۔
ترجمان کے بقول پابندیاں روسی بینک، ٹیکنالوجی اور دفاعی شعبے کا احاطہ کریں گی اور اس تنازع میں ملوث افراد اور کمپنیوں دونوں پر اثر پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ یوکرین کے نئے امدادی پیکج کا بھی اعلان کرے گا جس میں اقتصادی، سلامتی اور توانائی کی امداد شامل ہوگی۔
نہیں چاہتے کہ یوکرین تنازع بے قابو ہو: چین
چین نے روس اور یوکرین تنازع کے ایک سال مکمل ہونے پر جمعے کو جاری کیے گئے پوزیشن پیپر میں موقف اپنایا کہ وہ یوکرین کے بحران کو قابو سے باہر ہونے سے روکنا چاہتا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ پوزیشن پیپر کے مطابق چین نے کہا کہ ’یوکرین کے بحران کو حل کرنے کا واحد قابل عمل طریقہ مذاکرات اور مذاکرات ہیں۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 12 نکاتی پالیسی پیپر میں چین نے روس اور یوکرین سے جلد از جلد امن مذاکرات کرنے کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ تنازع میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
بیجنگ کی وزارت خارجہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’تمام فریقین کو ایک ہی سمت میں کام کرنے اور جلد از جلد براہ راست بات چیت دوبارہ شروع کرنے میں روس اور یوکرین کی حمایت کرنی چاہیے۔‘
چین نے تنازع کے ایک سال گزرنے پر اس بات پر زور دیا کہ ’جوہری ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہونا چاہیے اور جوہری جنگیں نہیں لڑنی چاہییں۔‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جمعرات کو ایک غیر پابند قرار داد کی منظوری دی، جس میں روس کو یوکرین میں کارروائی ختم کرنے اور اپنی افواج کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یوکرین کی طرف سے اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے تیار کردہ قرارداد کو 141-7 کے ووٹوں سے منظور کیا گیا۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دیمی ترو کولیبا نے کہا کہ ووٹ اس بات کا اہم ثبوت ہے کہ صرف مغرب ان کے ملک کی حمایت نہیں کرتا ہے۔
کولیبا نے کہا: ’یہ ووٹ اس دلیل کی تردید کرتا ہے کہ عالمی جنوب یوکرین کے ساتھ نہیں کھڑا ہے۔ لاطینی امریکہ، افریقہ، ایشیا کی نمائندگی کرنے والے بہت سے ممالک نے حق میں ووٹ دیا۔‘
دوسری جانب اے ایف پی کے مطابق تنازع کے ایک سال بعد روس نے جمعرات کو دعویٰ کیا کہ یوکرین مالڈووا میں ماسکو کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند علاقے ٹرانسنیسٹریا پر حملہ کرنے کی کوششیں تیز کر رہا ہے اور اس نے ’جواب‘ دینے کا وعدہ کیا۔
روسی وزارت دفاع کا یہ بیان یوکرین میں ماسکو کی جارحیت کو ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر جاری کیا گیا۔
تنازع ایک سال بعد
جہاں تک میدان جنگ کی بات ہے تو یوکرین کی فوج نے ملک کے مشرق اور جنوب میں روسی سرگرمیوں میں اضافے کی اطلاع دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روئٹرز کے مطابق روسی سرحد کے ساتھ تین یوکرینی شمالی علاقوں میں کم از کم 25 قصبوں اور دیہاتوں میں گولہ باری جاری ہے۔ اگرچہ ان کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔
روسی صدر ولادی میر پوتن نے گذشتہ سال یوکرین پر مکمل حملے کا حکم دیا تھا تاکہ کیئف پر فوری قبضہ کیا جا سکے اور حکومت کا تختہ الٹ دیا جا سکے، لیکن ان امیدوں کو ایک شدید دفاعی اور فوجی غلطیوں نے شرمندگی میں تبدیل کردیا۔
یوکرین نے 2022 کے آخر میں جوابی کارروائیوں میں کامیابی حاصل کی تھی اور اس نے ابتدائی طور پر کھوئے ہوئے زیادہ تر علاقے پر قبضہ کر لیا۔ روس اب یوکرین کے پانچویں حصے پر کنٹرول رکھتا ہے۔
تاہم امریکی اور مغربی حکام روس کی ہلاکتوں کا تخمینہ لگ بھگ 200,000 ہلاک یا زخمیوں کا لگا چکے ہیں جبکہ نومبر میں اعلیٰ امریکی جنرل نے کہا تھا کہ دونوں فریقین کے 100,000 سے زیادہ فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے بدترین تنازع میں جانی نقصان کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنا ناممکن ہے۔
دوسری جانب لاکھوں یوکرینی اپنے ملک سے فرار ہو چکے ہیں اور دسیوں ہزار شہری مارے جا چکے ہیں۔