آج پاکستان میں چھٹا عورت مارچ ہے۔ یہ ایک سماجی تحریک ہے اور ہر سماجی تحریک کی طرح عورت مارچ بھی عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے میڈیا پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن کیا پاکستانی میڈیا خواتین کے حقوق کی تحریک کو غیر جانب دارانہ طریقے سے کور کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
عوام کسی بھی سماجی تحریک کے بارے میں کیا جانیں گے اور کس طرح جانیں گے، اس بات کا انحصار اس تحریک کی ہونے والی میڈیا کوریج پر ہوتا ہے۔
صحافی اور صحافتی ادارہ اسے کئی انداز سے عوام کو پیش کر سکتا ہے اور اس پر ہونے والی میڈیا کوریج کی نوعیت تحریک کو کامیاب یا ناکام بنا سکتی ہے۔
عورت مارچ اوائل سے ہی میڈیا کی توجہ مبذول کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
ہر ادارے اور صحافی کا اس مارچ بارے اپنا نظریہ ہے اور وہ اس نظریے کے مطابق ہی کوریج کرتے نظر آتے ہیں۔ قریباً ہر ادارے کی دلچسپی مارچ کے بجائے اس کے اردگرد ہونے والے تنازعے پر ہے۔
کئی صحافی عورت مارچ کو کور کرنے جاتے ہیں تو ان کی نظریں کسی نہ کسی ایسے پلے کارڈ کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں جس پر لکھی تحریر کو وہ مزید سنسنی پھیلا کر عوام کے سامنے پیش کر سکیں۔
یہ نہیں تو مارچ کے خلاف دیا جانے والا ہر بیان خبر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے خلاف کوئی عدالت جائے یا اس کے خلاف قومی یا صوبائی اسمبلی میں قرارداد پیش یا منظور کی جائے، اسے خبر بنا دیا جاتا ہے۔
مارچ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کی تیاریاں کب سے ہوتی ہیں اور کیسے ہوتی ہیں؟ مارچ کی آرگنائزنگ کمیٹی کیسے بنتی ہے؟
وہ کمیٹی مارچ سے پہلے اور مارچ کے بعد کیا کیا کام سر انجام دیتی ہے؟ مارچ کا منشور کیسے بنتا ہے؟ ان تمام سوالوں اور ان سے متعلق خبروں میں ہمارا میڈیا بہت کم دلچسپی دکھاتا ہے۔
عام طور پر عورت مارچ کی غلط اور سنسنی خیز کوریج کا ذمہ دار یوٹیوبرز کو ٹھہرا دیا جاتا ہے حالانکہ مین سٹریم میڈیا بھی عورت مارچ کی قریباً ویسی ہی کوریج کرتا ہے۔
ایک مثال دیکھیں۔ ملک کے ایک بڑے اردو اخبار نے ایک سال عورت مارچ کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اس مارچ میں شریک خواتین نے مغربی لباس پہنے ہوئے تھے اور ان کے جسموں کے مختلف حصوں پر ٹیٹوز بنے ہوئے تھے۔
صحافی کی مغربی لباس سے کیا مراد تھی اور اس نے عورتوں کے جسموں پر موجود ٹیٹو کیسے دیکھے، اس بارے اس خبر میں کوئی تفصیل درج نہیں تھی۔
سوال یہ بھی ہے کہ صحافی کا کسی کے لباس اور ٹیٹوز پر تفصیل دینا کیا صحافت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟
حیران کن بات یہ ہے کہ یہ خبر ایک ایسے ادارے کے اردو اخبار میں شائع ہوئی جو عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بڑی واضح پالیسی رکھتا ہے۔
اسی ادارے کے انگریزی اخبار نے عورت مارچ کو مثبت انداز میں کور کیا ہوا ہے۔ اس کے انگریزی اخبار میں نہ صرف عورت مارچ کی حمایت میں اداریے موجود ہیں بلکہ زیادہ تر خبریں، فیچر اور کالم میں عورت مارچ اور اس کے مقاصد کو بار بار بیان کیا گیا ہے تاکہ عوام انہیں سمجھیں اور مارچ میں شریک ہوں۔
دوسری جانب اس ادارے کے اردو اخبار نے گذشتہ پانچ سالوں میں عورت مارچ پر ایک اداریہ بھی نہیں لکھا۔ اسی اخبار کے دو کالم نویس ایسے بھی ہیں جو عورت مارچ کے متعلق متضاد آرا رکھتے ہیں۔
ایک کے مطابق عورت مارچ ملک میں فحاشی پھیلا رہا ہے جبکہ دوسرے کے مطابق عورت مارچ ان عورتوں کی آواز ہے جنہیں پدرشاہی نے کئی برسوں سے چپ کر کے رکھا ہوا تھا۔
صحافی اور میڈیا کے ادارے عورت مارچ کی غیر جانب دارانہ کوریج کس طرح کر سکتے ہیں؟
سب سے پہلے تو عورت مارچ کو سمجھیں کہ مارچ کیا ہے۔ کب سے ہو رہا ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہے، تاکہ مارچ کو بغیر کسی تعصب کے دیکھا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے لیے کسی بھی عورت مارچ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر آدھا گھنٹہ صرف کر لیں۔ آپ کو اپنے بہت سے سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔
عورت مارچ پاکستان کے کئی شہروں میں ہوتا ہے۔ جن میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان، حیدرآباد اور سکھر کے مارچ نمایاں ہیں۔
ہر شہر کی اپنی آرگنائزنگ کمیٹی ہے اور ہر شہر ہر سال اپنا الگ منشور پیش کرتا ہے۔
پاکستان کے ہر شہر میں ہونے والے عورت مارچ کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں جن پر متعلقہ منشور موجود ہیں۔
اس کے علاوہ مارچ کے شرکا کے لیے مارچ میں شرکت کرنے کے حوالے سے ہدایات اور مارچ سے پہلے اور مارچ کے بعد ہونے والی ڈیجیٹل کیمپین بھی موجود ہے جو عورت مارچ کے حوالے سے خبریں بنانے کے لیے یہ مواد بہترین ہے۔
عورت مارچ کے حوالے سے تبصرہ لینا ہو تو مارچ کے آرگنائزرز سے رابطہ کیا سکتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت سے ادارے اور لوگ کام کر رہے ہیں۔
خواتین کو درپیش مسائل جاننے کے لیے ان اداروں سے رابطہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ عورت مارچ کی آرگنائزنگ کمیٹی اور شرکا کو ہر سال سخت دھمکیاں ملتی ہیں۔
مارچ کی کوریج کرتے ہوئے اس بات کا خاص دھیان رکھیں کہ آپ کی خبر کی وجہ سے ان کی زندگی مزید کسی خطرے میں نہ پڑ جائے۔
میڈیا کا کام عوام کو تحریک کے بارے میں غیر جانب دار ہو کر بتانا ہوتا ہے۔ عورت مارچ کے بارے میں ذاتی رائے آپ کے کام میں جھلکنی نہیں چاہیے اور یہی ایک صحافی کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔