یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
گذشتہ پانچ برس سے پاکستان کے کئی چھوٹے بڑے شہروں میں خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر عورت مارچ ہو چکا ہے۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ محض چند گھنٹوں کا کھیل ہے، لیکن فیمینسٹس کے لیے یہ ان کی مہینوں کی اَن تھک محنت کا نتیجہ ہے۔
اپنے حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین ہر سال ہونے والے مارچ کے لیے مہینوں پہلے سے کام کرنا شروع کرتی ہیں۔ رضاکار ڈھونڈتی ہیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر مارچ کی تیاری کرتی ہیں، چندہ جمع کرتی ہیں۔ مارچ کے لیے مختلف اداروں سے اجازت حاصل کرتی ہیں۔ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے لیے مواد بناتی ہیں۔ عدالتوں میں کیس بھگتاتی ہیں۔ ادھر ادھر سے جو آوازیں آ رہی ہوتی ہیں ان کا جواب دیتی ہیں۔ اس دوران تھکیں تو ایک دوسرے کا سہارا بھی بنتی ہیں۔
عورت مارچ کی تیاری اکتوبر سے شروع ہوتی ہے۔ ہر سال ہونے والے مارچ کے پیچھے بہت سے رضاکار ہوتے ہیں جو بغیر کسی غرض کے صرف ایک مقصد کے تحت مارچ کے لیے کام کرتے ہیں۔
یہ ہماری طرح عام سے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے گھر بھی ہیں۔ نوکریاں بھی ہیں۔ کاروبار بھی ہیں۔ وہ روزانہ اپنی مصروف زندگی میں سے چند گھنٹے عورت مارچ کے لیے نکالتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق مارچ کے لیے کام کرتے ہیں۔
رضاکاروں کی بھرتی کے لیے اکتوبر میں کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کے لیے عورت مارچ کی مختلف شاخیں اپنے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں، جسے دلچسپی ہو وہ ان کے ساتھ ہاتھ ملا لیتا ہے۔
نومبر سے عورت مارچ کے منتظمین اور رضاکار باقاعدہ ملنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی یہ ملاقاتیں مارچ ہونے تک جاری رہتی ہیں۔
وہ ہر ملاقات میں مارچ کے حوالے سے اپنے اپنے آئیڈیاز پیش کرتے ہیں اور آپس میں ذمہ داریاں بانٹتے ہیں۔
ہر رضاکار اپنی صلاحیتوں کے مطابق عورت مارچ میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ کوئی سوشل میڈیا کے لیے گرافکس کی ذمہ داری سنبھال لیتا ہے تو کوئی پوسٹر بنا دیتا ہے اور کوئی ان پوسٹروں کو لگانے کی ذمہ داری لے لیتا ہے۔
کچھ لوگ اس سال کے مارچ کا منشور بنانے کی ذمہ داری اٹھا لیتے ہیں۔ کچھ کے ذمے حکومتی اداروں سے مارچ کی اجازت حاصل کرنے کا کام لگا دیا جاتا ہے۔
فروری تک یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا ہے۔ مارچ کے قریب ان کاموں میں تیزی آ جاتی ہے۔ بقیہ رہ جانے والے کام تیزی سے نبٹائے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت ہی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر عورت مارچ کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جاتی ہیں۔ پریس کانفرنس ہوتی ہیں۔ ویڈیوز بنتی ہیں۔ پوڈکاسٹ ہوتی ہیں۔ منشور شائع کیا جاتا ہے۔
ساتھ ساتھ عورت مارچ کے لیے چندہ جمع کرنے کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔ عورت مارچ والے بھی ہر سال چندہ جمع کرنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ جیسے اس سال کئی شہروں میں فیمینسٹ ڈھولکی کا انعقاد کیا گیا۔
فیمینسٹس نے ڈھولکی بجاتے ہوئے ٹپے گائے۔ روایتی ٹپے۔ بس ان میں سے پدر شاہی نکال کر فیمینزم ڈال دیا۔ پاس کہیں چندے کا ڈبہ بھی رکھ دیا جو وہاں آنے والے لوگوں نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بھر دیا۔
آپ کو ٹپہ پسند آیا تو عورت مارچ کے چندے کے ڈبے میں سو روپے ڈال دیں، زیادہ ڈالنا چاہیں تو آپ کی مرضی۔
عورت مارچ کے منتظمین چندے کی رقم مارچ کے لیے ہونے والے اخراجات پر صرف کرتے ہیں۔ یہ بہت معمولی سے اخراجات ہوتے ہیں۔ چندے سے پورے ہو جاتے ہیں۔
عورت مارچ کے قریب صحافیوں کے لیے میڈیا پاس بنایا جاتا ہے تاکہ صرف وہی صحافی عورت مارچ کور کر سکیں جن کا مقصد خبر بنانا ہو، سنسنی پھیلانا نہ ہو۔
مارچ سے کچھ دن پہلے مارچ میں آنے والے افراد کے لیے حفاظتی ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ پھر مارچ ہوتا ہے۔ اس کی رونق تو سبھی دیکھتے ہیں۔ ہم اس کے بعد والے معاملات بتاتے ہیں۔
عورت مارچ کے بعد منتظمین کے لیے ایک نیا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہر طرف عورت مارچ کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہوتی ہیں۔ انہیں ان کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔
کچھ شر پسند عناصر عورت مارچ کی تصاویر سے چھیڑ چھاڑ کر کے عجیب و غریب سے تنازعات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوسٹروں کو فوٹو شاپ کر کے ان پر کچھ کا کچھ لکھ دیا جاتا ہے اور لوگ تصدیق کے بغیر انہیں لے کر عورتوں کو مطعون کرنے کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔
یہ سلسلہ اگلے چند ماہ تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد پھر سے اکتوبر آ جاتا ہے۔
اس دوران موٹر وے ریپ کیس یا نور مقدم قتل کیس جیسے واقعات ہوں تو ان کے خلاف بھی عورت مارچ والے ہی آواز بلند کرتے ہیں۔
تو جناب، یہ مارچ بس چند گھنٹوں کا کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے خواتین پورا سال پاپڑ بیلتی ہیں، پھر کہیں جا کر مارچ ہوتا ہے۔ ان کا ساتھ دینا چاہیں تو سو بسم اللہ، نہ دینا چاہیں تب بھی انہیں آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ بس ان کے کام میں رکاوٹ نہ کھڑی کریں۔ آپ اپنا کام کریں اور انہیں ان کا کام کرنے دیں۔