پاکستان سے بیرون ملک برآمد کی جانے والی ٹیکسٹائل مصنوعات کا بڑا حصہ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری تیار کرتی ہے۔
گارمنٹس ہوم ٹیکسٹائل یا دیگر مصنوعات کی کٹائی اور تیاری کے دوران بہت سارا کپڑا ضائع بھی ہوتا ہے جسے عام طور پر آگ لگا دی جاتی ہے یا کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے۔
لیکن فیصل آباد کی ٹیکسٹائل گریجویٹ مہوش عظیم نے اس ویسٹ کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے ایک ’سٹارٹ اپ‘ کیا ہے۔
مہوش ٹیکسٹائل ویسٹ سے تیار کی گئی مختلف مصنوعات ایمازون کے ذریعے امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں فروخت کر کے اپنی چار رکنی ٹیم کے ساتھ ساتھ دیگر 15 سے 20 خواتین کو روزگار فراہم کر رہی ہیں۔
انہوں نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر ٹیکسٹائل ویسٹ کو ایکو فرینڈلی (ماحول دوست) اور ٹرینڈی پروڈکٹس (جدید ٹصنوعات) میں تبدیل کر کے امریکہ اور پھر مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ میں آن لائن فروخت کر رہی ہیں۔
ان کے مطابق ’صرف فیصل آباد میں 29 ہزار کلوگرام سے زیادہ ٹیکسٹائل میٹریل روزانہ ویسٹ میں جا رہا ہے۔ یہ چیز میں نے اپنی عملی زندگی میں دیکھی ہے اور پھر میں نے سوچا کہ اس کوقابل استعمال بنانا چاہیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کی پہلی پروڈکٹ آرگینک کاٹن کے دوبارہ قابل استعمال (ری یوزایبل) ٹشو تھے اور اب وہ گروسری بیگز جمپ سوٹ میک اپ وائپس سمیت مختلف کسٹمائزڈ پروڈکٹس تیار کر رہی ہیں۔
’ہم نے اپنی پہلی پروڈکٹ تیار کر کے ٹیسٹنگ کے لیے امریکہ بھجوائی جس کا ہمیں بہت اچھا فیڈ بیک ملا۔ اس کے بعد ہم نے اسے پروفیشنل طور پر آگے بڑھانے کے لیے انکیوبیشن سنٹر جوائن کیا اور اب ہماری مختلف مصنوعات آن لائن فروخت ہو رہی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ملازمت چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کرنے میں انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
’سب سے پہلا چیلنج تو یہ تھا کہ ملازمت چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کیا جائے کیوں کہ بطورعورت یہ بہت بڑا چیلنج تھا اور میں نے اس کا سامنا کیا ہے۔ میں نے اپنے اہل خانہ اور دوستوں کو قائل کیا کہ کس طرح کاروبار ملازمت سے بہتر ہو سکتا ہے کیوں کہ کاروبار سے ہم ملازمتیں پیدا کر سکتے ہیں اور خواتین کے لیے مواقع مہیا کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ دوسرا بڑا چیلنج ٹیکسٹائل انڈسٹری سے ویسٹ اکٹھی کرنا تھا اور ان کی کوششوں سے اب مختلف ٹیکسٹائل ملز انہیں مستقل بنیادوں پر ٹیکسٹائل ویسٹ فراہم کر رہی ہیں۔
’اب ہم اس ویژن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ انڈسٹری میں ’زیرو ویسٹ‘ کا نظریہ رائج کیا جا سکے۔‘
مہوش کے مطابق ان کے لیے تیسرا بڑا چیلنج تیار مصنوعات کی پاکستان سے انٹرنیشنل مارکیٹ میں ترسیل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پاکستان سے انٹرنیشنل مارکیٹ میں شپنگ کرنا چین سے انٹرنیشنل مارکیٹ میں شپنگ کرنے کی نسبت مہنگا ہے۔ اس وقت ہم اس چیز پر کام کر رہے ہیں کہ انٹرنیشنل شپنگ کے عمل کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’شپنگ کے حوالے سے درپیش مشکلات کو حل کرنے کے لیے وہ کوشش کر رہی ہیں کہ امریکہ میں ہی کوئی ویئر ہاوس بنایا جا سکے۔‘
مہوش کے مطابق وہ اس سٹارٹ اپ سے پہلے بھی ایمازون کے ذریعے ایک پروڈکٹ جاپان اور امریکہ کی مارکیٹ میں شروع کر چکی ہیں اور ایمازون کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد ہی انہوں نے ٹیکسٹائل ویسٹ سے بننے والی پروڈکٹس بنانا شروع کی ہیں۔
ان کے مطابق ’ہماری چار لوگوں پر مشتمل فاونڈنگ ٹیم ہے جس میں ہمارے پاس دو فیشن ڈیزائنرز ہیں کیوں کہ ہماری کچھ ملبوسات ہیں جیسے ماڈل سوٹ وغیرہ جنہیں وہ ڈیزائن کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ محمد روف انٹرنیشنل مارکیٹ کو دیکھتے ہیں اور میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سے کوارڈینیشن کرتی ہوں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’بعض سرمایہ کار ان کے سٹارپ اپ میں سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں لیکن وہ ابھی اس مرحلے پر ایسا نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ ہم نے بہت کم سے سٹارٹ کیا تھا اور اس وقت ہم چارگنا زیادہ کما رہے ہیں جتنی کہ ہماری لاگت ہےاور میری کوشش ہے کہ ہم اپنی بنیاد کو مزید مضبوط کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ دیگر خواتین کو بھی یہی مشورہ دیتی ہیں کہ وہ جس ماحول میں کام کر رہی ہیں اس کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ اس کی بہتری میں وہ اپنا حصہ کیسے ڈال سکتی ہیں کیوں کہ چیلنجز سے ہی مواقع پیدا ہوتے ہیں۔