نوازالدین صدیقی کو شکوہ رہا کہ ان کی ’کھیلنے کی عمر کمانے میں نکل گئی‘ اور وہ زندگی کے سنہرے لمحات بھرپور طریقے سے نہ جی سکے۔ اب شہرت اور دولت کی دیوی مہربانی ہوئی تو اہلیہ اور بھائی روٹھ گئے۔ ریپ الزامات، آڈیو کے بعد ویڈیو لیک کی دھمکی۔ کیا قریبی رشتہ دار کسی کامیاب انسان کی ٹانگ کھینچے بغیر رہ سکتے ہیں؟
گذشتہ چند ہفتے نواز الدین صدیقی کے لیے کسی بھیانک خواب سے کم نہ تھے۔ ان کی بیوی عالیہ اور ان کے بھائی ان کے خلاف مسلسل محاذ کھولے ہوئے ہیں جن میں الزامات کی بوچھاڑ سے لے کر بات دھمکیوں اور کورٹ کچہری تک جا پہنچی ہے۔
چند روز قبل عالیہ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو ڈال دی جس میں وہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ سخت پریشانی کے عالم میں کھڑی ہیں اور ان کی بڑی بیٹی رو رہی ہے۔ عالیہ بتاتی ہیں کہ وہ ابھی نواز الدین صدیقی کے بنگلے سے آئی ہیں، انہیں اندر گھسنے نہیں دیا جا رہا، رات کے تقریباً 12 بج چکے ہیں اور میرے پاس محض 81 روپے ہیں، نہ ہوٹل ہے نہ گھر، کچھ سمجھ نہیں آ رہا بچوں کو کہاں لے کر جاؤں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق جس بنگلے کے سامنے کھڑے ہو کر ویڈیو بنائی گئی دراصل وہ نواز الدین صدیقی کا ہے ہی نہیں۔ نواز الدین صدیقی کے مطابق وہ یہ گھر اپنی والدہ مہرالنسا کے نام کر چکے، سو اب یہ ماں کا اختیار ہے گھر میں کون آئے کون نہیں۔
نواز الدین صدیقی اور ان کی اہلیہ کے درمیان تنازع ماضی میں بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ 2018 میں بھی عالیہ نے عدالت سے خلع کے لیے رجوع کیا تھا مگر پھر دونوں کے درمیان صلح صفائی ہو گئی تھی مگر ایسا لگتا ہے بچوں کی تحویل سے دونوں ایک دوسرے کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔
نواز الدین صدیقی نے بچوں کی تحویل کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ دوسری طرف عالیہ نے ان کے خلاف ریپ کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
دو ہفتے قبل انسٹاگرام پر ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے عالیہ نے کیپشن دیا کہ ’ایک معروف اداکار جو عظیم انسان بننے کی کوشش کرتا ہے، ایک سنگ دل ماں (نواز کی والدہ) جو میرے معصوم بچوں کو ناجائز کہتی ہے لیکن یہ شخص خاموش رہتا ہے، گزشتہ روز ورسووا تھانے میں ریپ کا مقدمہ (شواہد کے ساتھ) درج کروا لیا ہے، میں اپنے معصوم بچوں کو ان سنگ دل لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں جانے دوں گی۔
تم اپنی طاقت سے لوگوں کو خرید سکتے ہو لیکن مجھ سے میرے بچے نہیں چھین سکتے، بتاؤ مجھ سے بچے چھین کر کہاں رکھو گے؟ میرے بچے کیا تمہارے ساتھ رہ لیں گے؟ بچوں کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ باپ کیا ہوتا ہے۔‘
پیر کے روز نوازالدین نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک طویل تحریر شیئر کی۔ انہوں نے کہا کہ کہانی کا محض ایک رخ دیکھ کر لوگ انہیں ’گھٹیا آدمی‘ قرار دینے لگے ہیں۔
’میری خاموشی کی وجہ سے مجھے ہر جگہ گھٹیا آدمی کہا گیا۔ میں نے کسی فورم پر بات نہیں کی کیونکہ یہ سب تماشہ کہیں نہ کہیں میرے چھوٹے بچے پڑھتے ہوں گے۔ چند نکات ہیں جو میں بیان کرنا چاہوں گا - سب سے پہلے میں اور عالیہ کئی سالوں سے ساتھ نہیں رہتے، ہم پہلے ہی طلاق لے چکے ہیں لیکن ہم یقینی طور پر صرف اپنے بچوں کے لیے مصالحت کیے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی جواب دے سکتا ہے کہ میرے بچے ہندوستان میں کیوں ہیں اور 45 دنوں سے سکول کیوں نہیں جا رہے، وہ (انڈیا میں بیٹھ کر) دبئی میں اپنی تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں۔‘
گھر سے نکالنے والے الزامات کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’اسے میرے بچوں کے لیے لگژری کاریں دی گئی تھیں، لیکن اس نے انہیں بیچ کر پیسے خود پر خرچ کر ڈالے، میں نے اپنے بچوں کے لیے ممبئی میں ایک شاندار سمندری اپارٹمنٹ بھی خریدا ہے۔ وہ صرف مزید پیسے چاہتی ہے، اس لیے اس نے میرے اور میری والدہ کے خلاف متعدد مقدمات درج کروائے اور یہ اس کا معمول ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوا اور جب اس کی مانگ کے مطابق ادائیگی کی جائے تو کیس واپس لے لیتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نواز الدین نے بہت تحمل اور وضاحت سے تمام الزامات کے جواب پیش کیے تو لگ رہا تھا اب کچھ روز سکون رہے گا۔ مگر نواز کے سگے بھائی اس موقع کو ہاتھ سے کیسے جانے دے سکتے تھے۔
شمس صدیقی نے ایک آڈیو ریکارڈنگ کو ہولی کا تحفہ قرار دیتے ہوئے شئیر کر دیا۔ آڈیو ریکارڈنگ میں ہم دو آدمیوں کو بات کرتے ہوئے سنتے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ نوازالدین صدیقی اپنے عملے کے لڑکوں کو مارتے ہیں۔
ان کے بھائی نے ساتھ میں یہ دھمکی بھی دی کہ وہ عملے کے اراکین پر نواز الدین صدیقی کے تشدد کی ویڈیو بھی وائرل کر دیں گے۔
نواز الدین صدیقی انتہائی معمولی پس منظر سے ابھر کر سامنے آئے۔ انہوں نے بطور اداکار طویل انتظار کیا اور چھوٹے چھوٹے کردار کرتے ہوئے اپنا نام بنایا، اپنی ساکھ قائم کی۔ اب انہیں وہ مرحلہ درپیش ہے جہاں بہت سے رشتے بوجھ اور زندگی میں رکاوٹ بننے لگتے ہیں۔
ان کے بھائی شمس الدین صدیقی کہتے ہیں کہ نواز ایسے لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں جنہوں نے ان کا ساتھ دیا ہو۔ اس سلسلے میں انہوں نے عالیہ اور اپنی مثال پیش کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ نوازالدین کے پاس پیسہ آیا، اب وہ کسی اور بلندی سے دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر ایسے میں ان کے بھائی وغیرہ کی تصویریں مدھم ہو گئیں تو کیسا شکوہ۔
شمس الدین صدیقی بھی اسی ماں باپ کی اولاد تھے جنہوں نے نواز کو جنما۔ دونوں کا بچپن اور ابتدائی زمانہ ایک ساتھ گزرا۔ اگر نوازالدین اپنی مسلسل جد و جہد سے بالی وڈ کے بہترین اداکاروں کی فہرست میں اپنا نام درج کرا سکتے تھے تو شمس الدین کیوں کسی شعبے میں ترقی نہ کر سکے؟ کسی بھی طرح نوازالدین صدیقی پر ان کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔
گینگ آف واسع پور میں نوازالدین صدیقی کا ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا، ’بھائی کا باپ کا دادا کا، سب کا بدلہ لے گا تیرا فیجل۔‘ یہاں فیجل کو بدلہ نہیں لینا بس اگنور مارنا ہے۔ ایسے لاجواب اداکار کی صلاحیتوں کو معمولی لڑائیوں میں ضائع نہیں ہونا چاہیے۔