بالی وڈ کے جذبات کی عکاسی کرنے والی آوازوں میں سے ایک اداکار شاہ رخ خان نے اپنے منفرد گالوں کے ساتھ بھارت میں مداحوں کو تین دہائیوں تک رومانس کا ایک برانڈ فروخت کرایا ہے۔
لیکن ان کے بیٹے آریان نے منشیات کے ایک مقدمے میں 26 دن جیل میں گزارے اور ان کے گذشتہ ماہ ضمانت پر جیل سے باہر آنے کے بعد، بالی ووڈ کے اندرونی حالات سے واقف لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت اس بلین ڈالر کی صنعت کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کر رہی ہے جس انڈسٹری کا انحصار برانڈز پر ہے۔ واضح طور پر اظہار خیال کرنے والے یہ مسلمان اداکار بلاشبہ ایک عالمی برانڈ ہیں۔
یہ مقدمہ پہلے سے ہی خوفزدہ انڈسٹری کے لیے ایک پیغام ہے کہ کوئی بھی حکومت کی چھان بین سے بالاتر نہیں ہے۔
دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سنیما اسٹڈیز کی پروفیسر رنجنی موجمدار نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جب ایک طاقتور شخصیت[جیسے مسٹر خان] کو اس حد تک مجبور کیا جائے تو اس کا کیا مطلب ہے۔‘
انہوں نے کہا:’آپ ایک پیغام بھیجتے ہیں کہ ہم بڑے لوگوں کے پیچھے بھی جا سکتے ہیں۔ آپ ملک میں پھیلنے والی دہشت کا تصور کریں۔‘
2 اکتوبر2021 کو منشیات کے خلاف کام کرنے والے ادارے کے سادہ لباس میں ملبوس افسران نے 24 سالہ آریان خان کو سات دیگر افراد کے ساتھ اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ کروز شپ میں دو روزہ ’میوزیکل بحری سفر‘ پر تھے۔
چھاپے کے بعد نارکوٹکس کنٹرول بیورو نے انکشاف کیا کہ انہوں نے پر تعیش جہاز سے مختلف غیر قانونی اشیا اور ایک لاکھ 30 ہزار بھارتی روپے برآمد کیے ہیں۔ انہوں نے آریان پر غیرقانونی منشیات کے ’استعمال، فروخت اور خریداری میں ملوث ہونے‘ کا الزام عائد کیا تھا۔
اس کے بعد آنے والے دنوں میں شاہ رخ خان کا پریشان چہرہ بھارت کے ذرائع ابلاغ کی زینت بنا رہا۔
فلمی نقاد سچریتا تیاگی لکھتی ہیں کہ ’جلد ہی یہ سارا معاملہ مشکوک لگنے لگا تھا۔‘
تیاگی بتاتی ہیں: ’جب آپ کو پتا چلتا ہے کہ [برآمد ہونے والی منشیات کی] مقدار، اور یہ کہ [خان کی] ضمانت کو کئی بار مسترد کیا جا رہا ہے، پھر یہ کہ ایک نجی جاسوس ہے جو [اس پورے واقعے میں پھنس گیا تھا] مگر اب لاپتہ ہو چکا ہے، تو آپ کو یقین نہیں آتا کہ اب مزید کیا کہانی بنائی جائے۔‘
ممبئی میں مقیم ریڈیو جوکی روہنی رام نتھن کا کہنا ہے کہ ’کچھ تو بڑا ہو رہا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں جنہیں 2021 میں نئے سال کے موقع پر اس الزام میں گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ ایسے لطیفے بناتے تھے جن سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں وہ اس لڑکے (آریان) کو مثال بنا رہے ہیں۔‘
بھارت کی سپریم کورٹ کی جانب سے 28 سالہ اسٹینڈ اپ کامیڈین کی عبوری ضمانت منظور ہونے سے قبل فاروقی نے 37 دن جیل میں گزارے۔
رام ناتھن نے آریان اور فاروقی کی گرفتاریوں میں مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’گدشتہ دو ماہ کے دوران بھارت میں نوجوان مسلمان لڑکوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’یہ دونوں نوجوان بھارتی مرد ہیں جو عوام کی نظروں میں ہیں، جن کا قصور صرف یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک مخصوص مذہبی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔‘
لیکن آریان اس معاملے میں عوامی شخصیت نہیں، ان کے والد ہیں۔
سدا بہار بالی ووڈ محبت کی کہانیوں جیسے دل والے دلہنیا لے جائیں گے، کچھ کچھ ہوتا ہے، اور کبھی خوشی کبھی غم کے رومانوی ہیرو کو ان کے غریب گھرانے سے تعلق اور’باہر سے ہونے‘ کے باوجود ’کنگ خان‘ کہتے ہیں۔
شاہ رخ خان کی پیدائش اور پرورش دارالحکومت نئی دہلی میں ہوئی جہاں انہوں نے ایک عیسائی مشنری اسکول میں تعلیم حاصل کی اور دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی۔
شوبز میں ان کا پہلا قابل ذکر کام 1988 میں بھارت میں کے عوامی نشریاتی ادارے پر ہندی زبان کے ٹیلی ویژن شو میں تھا۔ دو سال بعد جب ان کی والدہ کینسر سے انتقال کر گئیں تو وہ فلموں میں اپنا کیریئر بنانے کے لیے ممبئی چلے گئے۔
شاہ رخ خان نے 60 سے زائد فلموں میں اداکاری کی ہے، جن میں سے 17 نے ایک ایک ارب بھارتی روپے (13 ملین ڈالرز) سے زائد کی کمائی کی۔ وہ ایک پروڈکشن کمپنی کے مالک ہیں اور متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز جیت چکے ہیں، اس سب کے باوجود وہ اپنے عروج میں مداحوں کے کردار کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔
ان کی 2016 کی فلم ’فین‘ شہرت اور فلم بینوں کے ملک میں لاکھوں مداحوں کے ساتھ اداکاروں کے پیچیدہ تعلقات کو سراہتی ہے۔
فلم نقاد انکر پاٹھک کا کہنا ہے ’وہ اس طرح کا ستارہ ہے جس کی تعریف کرنے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ وہ ذہین، بہت زیادہ علم رکھنے والے اور انہوں نے طویل سفر کیا ہے، ان کی فلسفیانہ سوچ مضبوط ہے اور ان سے بات کرکے انتہائی دلچسپ لگتا ہے۔‘
2015 میں ان کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک انتہائی مشہور ہوجانے والے انٹرویو میں صحافی برکھا دت نے ان سے ملک کے سیاسی ماحول پر تبصرہ کرنے کو کہا، خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے تناظر میں، شاہ رخ خان نے جواب دیا کہ مذہبی عدم برداشت بھارت کو تاریک دور میں واپس لے جائے گی۔
شاہ رخ خان نے کہا کہ ’مذہبی عدم برداشت سے زیادہ کوئی چیز کم اہم نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ کسی بھی ملک کے لیے ’آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ہے۔‘
صحافی کاویری بامزئی یاد کرتے ہیں کہ انٹرویو کے بعد اداکار کو’بری طرح ٹرول‘ کیا گیا تھا۔ اترپردیش کے وزیر اعلی اور ہندوتوا کے سخت حامی یوگی آدتیہ ناتھ نے شاہ رخ خان کا موازنہ دہشت گرد سے کیا تھا۔
شاہ رخ کے ہم عصر اداکار عامر خان کو بھی 2016 میں اس وقت پریشان کیا گیا جب انہوں نے کہا کہ وہ بھارت میں عدم برداشت میں اضافے سے ’خوفزدہ‘ ہیں۔ ایک بہت بڑا سپر اسٹار ایک آن لائن تنقیدی مہم کا موضوع بن گیا جس کے نتیجے میں ای کامرس پلیٹ فارم سنیپ ڈیل نے انہیں اپنے برانڈ ایمبیسڈر کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
پاٹھک کا کہنا ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر آپ کوئی موقف اختیار کرتے ہیں تو یہ ناگزیر ہے کہ لوگ آپ کے پیچھے آئیں گے۔
اس سال کے اوائل میں ممبئی میں فلم ساز انوراگ کیشپ اور اداکار تاپسی پنو کی رہائش گاہوں پر انکم ٹیکس کے چھاپوں کو فلم انڈسٹری کے بہت سے لوگوں نے انتقامی قرار دیا تھا کیونکہ کیشپ اور پنو دونوں مودی کے شدید ناقدین رہے ہیں۔ سرکاری لائن یہ تھی کہ چھاپوں میں مبینہ ٹیکس چوری کی تحقیقات کی گئیں۔
’دی تھری خانز: اینڈ دی ایمرجینس آف اے نیو انڈیا‘ کے عنوان سے کتاب لکھنے والے بامزئی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بالی ووڈ کی بے پناہ سافٹ پاور کو سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ’ حکومت بالی ووڈ صنعت کے ممتاز ارکان کو بھی کے متعلق اپنے قوم پرست نظریے میں شریک کرنا چاہتی ہے۔ اور ہر کوئی اس میں شریک نہیں ہو رہا۔‘
بامزئی جن تین خانوں کا حوالہ دیتے ہیں ان میں شاہ رخ، عامر اور سلمان خان شامل ہیں جو بالی ووڈ میں سب سے کامیاب ہیں۔ وہ 2019 کے انتخابات سے قبل مقبول اداکاروں کے ساتھ لی گئی وزیر اعظم مودی کی سیلفی میں خاص طور پر نہیں تھے۔
تیاگی کا کہنا ہے: ’اگر آپ شاہ رخ کے مداح نہیں بھی ہیں تو بھی ان کا اثر ناقابل تردید ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’اگر کوئی حکومت یا حکمران جماعت جو پاپ کلچر آئکن کی طاقت کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہی ہے تو خان اس نظام میں سب سے زیادہ بااثر ہیں۔‘
شاہ رخ خان کے فلم انڈسٹری کے بہت سے ساتھی اداکار ان کی حمایت میں عوامی طور پر سامنے نہیں آئے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ خوف اور ازخود سنسر شپ کے ماحول نے انڈسٹری کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
جب #MySRKStory نے ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنا شروع کیا تو اداکار کی حمایت اور محبت کا اظہار آن لائن کیا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر کسی کے پاس شیئر کرنے کے لیے شاہ رخ خان سے متعلق ایک کہانی تھی۔ اور ماہر معاشیات شریانا بھٹا چاریہ کے مطابق یہ ان کی اصل طاقت ہے۔
بھٹا چاریہ ایک نئی کتاب کی مصنفہ ہیں، جو شاہ رخ کی محبت کی کہانیوں کے ذریعے بھارتی خواتین کے رہن سہن، آزادی اور آزادی کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کتاب کا ایک اہم موضوع ایک آئکن کی طاقت کو ڈی کنسٹرکٹ کرنا ہے۔
ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ ’مجھے شاہ رخ خان کے بارے میں ایک چیز واقعی قابل ذکر لگی کہ میں جہاں بھی گئی، ان کے آئکن ہونے نے یہ جگہ بنائی - ان کے گانوں، مناظر اور انٹرویوز کی وجہ سے- جس نے لوگوں کو اپنے بارے میں بہت سوچ سمجھ کر بات کرنے کی اجازت دی۔‘
پاٹھک کا خیال ہے کہ شاہ رخ خان کی مشہور شخصیت ایک رومانوی وجہ سے اس سکینڈل سے متاثر نہیں ہوئی تھی۔ وہ ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے ہمیں محبت کرنا سکھایا۔
ان کا کہنا ہے کہ’نفرت ان کی شہرت میں معمولی سا ڈینٹ بھی نہیں ڈال سکی۔‘
© The Independent