کھیلوں میں حصہ لینا کھلاڑیوں کے اپنے شوق پر منحصر ہوتا ہے لیکن ہر کھیل کے لیے اس کی مناسبت کا سازوسامان بھی ضروری ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں دیگر کھیل بھی بچے اور نوجوان کھیلتے ہیں مگر کرکٹ کھیلنے والوں سے میدان بھرے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ واحد کھیل ہے جو بچے گلی محلوں یا گھروں کی چھت پر بھی کھیل کر شوق پورا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن جب پروفیشنل سطح پر کرکٹ کھیلنے کا کوئی سوچتا ہے تو سب سے پہلے کلب جوائن کرنا ہوتا ہے جہاں پریکٹس اور تربیت سے کوئی بھی کھلاڑی اپنی صلاحیت کی بنیاد پر وقت کے ساتھ آگے نکلتا ہے۔
ویسے تو شروع سے ہی پروفیشنل کرکٹ کا شوق مہنگا ہی رہا ہے لیکن ان دنوں مہنگائی کی لہر میں کرکٹ کٹ بیگز خریدنا متوسط طبقے کے کھلاڑیوں کے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے۔
سیالکوٹ میں کرکٹ کے سامان کی دکان کے مالک ذولفقار ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جو نوجوان یا طالب علم سکول لیول پر کرکٹ کے لیے چندہ جمع کر کے بیٹ یا سامان خریدنا چاہتے ہوں ان کے لیے مسئلہ نہیں ہے۔‘
سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں کرکٹ کا تیار ہونے والے سامان سے کرکٹ کا کٹ بیگ تیار کریں تو کم از کم 25 سے 30 ہزار میں ایک بلے باز پریکٹس کے لیے وکٹ پر کھڑا ہونے کے قابل ہوتا ہے۔
کرکٹ میں استعمال ہونے والی ہارڈ بال کی وجہ سے بلے کے ساتھ بلے باز کو حفاظتی سامان کی بھی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے۔
جس میں شوز اور یونیفارم کے علاوہ پیڈ، تھائیز، گلوز، سیوگارڈ اور ہیلمٹ وغیرہ لینا ضروری ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کے بقول پریکٹس کے لیے کٹ بیگ خریدنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے جو متوسط طبقے کے لیے تو کسی امتحان سے کم نہیں۔ کرکٹ کے شوقین نوجوان بعض اوقات تعلیم بھی ساتھ حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔
لہذا تعلیمی اخراجات کے ساتھ کرکٹ کے لیے سامان کی خریداری کے پیسے جیب خرچ یا گھر والوں کی مدد کے بغیر حاصل نہیں ہوتے دوسری جانب کئی والدین بچوں کی تعلیم کو زیادہ اہم سمجھتے ہوئے کرکٹ کھیلنے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے جس سے کھلاڑیوں کو کرکٹ کٹ خریدنا اور کلب کی فیس دینا بھی پریشان کن لگتا ہے۔
لیکن شوق پورا کرنے کے لیے کھلاڑی کسی بھی طرح کٹ خرید کر شوق پورا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کھلاڑیوں کے مطابق 30 یا 40 ہزار روپے کا کٹ بیگ لے کر کرکٹ کھیلنا کافی دشوار ہوتا ہے پھر میچز کے لیے الگ سے بلا لینا پڑتا ہے کیونکہ پریکٹس بیٹ سے میچ کھیلنے سے کارکردگی بہتر نہیں رہتی۔
تعلیمی اخراجات کے ساتھ ان طلبا کے لیے کرکٹ کھیلنا آسان نہیں ہوتا اور کوئی مالی سپورٹ بھی نہیں ہوتی اور اپنی جیب سے ہی سارا خرچ اٹھانا پڑتا ہے جس سے کئی غریب گھروں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی کھیل چھوڑ کر کام کاج کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔