صوبہ خیبرپختونخوا کے بڑے اور حساس قید خانے پشاور سینٹرل جیل سے متعلق یکے بعد دیگرے منفی خبریں سامنے آنے کے بعد جیل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ ’درپردہ مقاصد‘ پورے کرنے کے لیے جیل اور انتظامیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چند دن قبل سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں نظر نہ آنے والے ایک شخص نے جیل دکھاتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ باہر منشیات کا کاروبار کرنے والے کچھ افراد جیل میں کھلے عام قیدیوں کو منشیات فراہم کر رہے ہیں۔
اگرچہ اس ویڈیو میں تبصرہ کرنے والا شخص نظر نہیں آتا اور نہ ہی کوئی ایسا ثبوت دکھائی دیتا ہے جس سے معلوم ہوسکے کہ منشیات فراہم کی جا رہی ہے لیکن اس ویڈیو نے سوشل میڈیا صارفین کو طیش اور شک میں ضرور ڈال دیا۔
ویڈیو سامنے آنے کے 24 گھنٹے بعد ایک اور خبر یہ آئی کہ ایک قیدی پشاور سینٹرل جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
48 گھنٹے بعد ایک اور ویڈیو سامنے آئی جس میں پولیس کو قیدیوں پر مبینہ طور پر تشدد کرتے دکھایا گیا اور اس کو بھی پشاور سینٹرل جیل سے منسوب کیا گیا۔
گذشتہ ہفتے پھر یہ خبر سامنے آئی کہ قیدیوں نے جیل کے اندر احتجاج کیا۔ جب پولیس کی جانب سے انہیں روکنے کی کوشش کی گئی تو ہاتھا پائی میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہوگیا۔
جیل انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پشاور سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ مقصود خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے تمام خبروں کو من گھڑت قرار دیا۔
’جس ویڈیو میں سینٹرل جیل کو دکھایا گیا ہے وہ پرانی ہے کیونکہ جس شخص کا نام لیا گیا ہے وہ پچھلے دو سال سے جیل میں قید ہے۔
’تاہم غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس ویڈیو میں کہیں بھی منشیات فراہم کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔
’پچھلے چھ ماہ کے دوران ایسا کوئی واقعہ یہاں پیش نہیں آیا، باقی جس ویڈیو میں تشدد دکھایا گیا ہے وہ جگہ پشاور سینٹرل جیل نہیں کوئی اور جگہ ہے۔
’اور قیدیوں کے جس احتجاج کی بات ہو رہی ہے وہ دراصل گذشتہ دنوں دو ہیروئن کے عادی افراد کےدرمیان لڑائی تھی جس میں ہمارے اہلکار نے مداخلت کی تو وہ گر کر زخمی ہوا۔‘
سپرنٹنڈنٹ جیل نے مزید کہا کہ ’ایک ہفتے کے اندر مسلسل منفی خبروں کے پیچھے جیل کے اندر موجود مختلف گینگز ہیں جو من گھڑت خبریں پھیلاتے ہیں اور جس کے لیے وہ کبھی میڈیا میں کچھ لوگوں اور کبھی جیل کے اندر لوگوں کو لالچ دے کر ساتھ ملا لیتے ہیں۔
’دراصل اس طرح عدالتوں اور حکومت کے سامنے اپنی بےگناہی ظاہر کرنے کے لیے جیل انتظامیہ کو بدنام کرتے ہیں۔ لیکن ہم نے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا اور وہ اب بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔‘
مقصود خان نے کہا کہ ایسا بھی نہیں کہ جیل کے اندر منشیات لے جانے کی کبھی کوشش نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ایسا کئی مرتبہ ہوا کہ خشک میوے، کپڑوں اور جوتوں وغیرہ میں منشیات اندر لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے اور پکڑے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس جرم میں نہ صرف قیدیوں کے دوست واحباب شامل ہوتے ہیں بلکہ کبھی کبھار خود ہمارے عملے میں ایک آدھ شخص ملوث ہوجاتا ہے، جن کے اوپر ہم نے ماضی میں ایف آئی آر کاٹی اور گرفتار کیا۔ اس کا ریکارڈ موجود ہے لیکن یاد رہے کہ یہ منشیات کی نہایت حقیر مقدار ہوتی ہے۔‘
مقصود خان نے بتایا کہ پشاور سینٹرل جیل میں 51 فیصد قیدی منشیات کے کیسوں میں گرفتار ہیں۔
’ان میں سمگلرز بھی ہیں، انڈر ٹرائل قیدی بھی، بچے بھی اور خواتین بھی۔ اس وقت پشاور سینٹرل جیل میں قیدیوں کی کل تعداد تین ہزار 483 ہے۔ ان میں تقریباً دو ہزار قیدی نارکوٹکس کے کیسز میں قید ہیں۔‘
مقصود خان نے اس بات کی بھی تردید کی کہ قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔
’اگر ایسا ہوتا تو سینٹرل جیل میں مختلف نوعیت کے قیدیوں کو الگ نہ رکھا جاتا۔ کم عمر قیدیوں کے لیے اوپن ایئر جم نہ کھولا جاتا۔
’یہاں ایک لائبریری بھی کھول دی گئی ہے۔ جیل کے اندر ہسپتال سمیت قیدیوں کو بہترین کھانا بھی دیا جاتا ہے۔‘