چائے دریافت چین والوں کی ہے اور یہیں سے انگریز اسے یورپ تک لے گئے اور آج یہ دنیا بھر کا پسندیدہ مشروب ہے۔
انگریزوں نے چائے پر چین کی بالادستی کم کرنے کے لیے انڈیا کے پہاڑی علاقوں دارجیلنگ اور دیگر علاقوں میں چائے کاشت کی۔ ہالینڈ، پرتگال اور برطانیہ کی چائے کے کاروبار پر قبضے کے لیے بڑی چشمک رہی ہے۔
دنیا بھر میں شکر والی چائے پی جاتی ہے، جبکہ تبت، لداخ اور بلتستان میں سبز چائے پینے کا زیادہ رواج ہے۔ یہ سبز چائے خاص طریقے سے بنائی جاتی ہے اور اس میں شکر کے بجائے نمک اور دیسی گھی کا تڑکہ بھی لگتا ہے۔
سبز چائے بنانے کے لیے مخصوص کھلے منہ والا پتیلا استعمال ہوتا ہے جسے ’بٹی‘ کہتے ہیں۔ یہ پیتل کا ہوتا ہے۔ اس میں چائے کی پتی کو کئی گھنٹے ابال کر اس کا رنگ نکھارا جاتا ہے، لیکن چائے بنانے کا عمل یہیں پر رکتا نہیں ہے، اس کے بعد ایک اور لکڑی کے بنے سلنڈر نما برتن میں خوب پھینٹا جاتا ہے تاکہ رنگ مزید چوکھا آئے۔
اب تیسرے مرحلے میں چائے کو جو اس حالت تک صرف ’چاتھنگ‘ کہلاتی ہے، واپس بٹی نامی برتن میں ڈالا جاتا ہے پھر حسب ضرورت اس میں دودھ اور گھی ملا کر گرم کیا جاتا ہے، تب یہ سبز چائے کہلاتی ہے۔ لیکن اب بھی پینے کا مرحلہ نہیں آتا ہے کیوں کہ اس کے بعد سبز چائے کو سماوار میں ڈال کر رکھ دیا جاتا ہے تاکہ دیر تک گرم رہے اور بعد ازاں مخصوص گول پیالوں میں پیش کیا جاتا ہے۔
بلتستان میں سبز چائے کب پہنچی، اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم 1874 میں شائع شدہ ایک کتاب Trade Products of Leh - Statistics of the Trade میں درج تفصیل کے مطابق ’لہاسا ٹی‘ نامی چائے کی لیہہ، لداخ سے بطرف کشمیر اور بلتستان بھیجی گئی مقدار اور اخراجات کا تخمینہ دیا گیا ہے۔
مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چینی والی چائے بھی اپنا راستہ بنا گئی ہے اور اب سبز چائے کے پہلو بہ پہلو میٹھی چائے بھی ہر ایک کی ضرورت بن گئی ہے۔
سکردو میں 1978 سے شاہراہِ قراقرم کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد کاروباری سرگرمیوں میں یک لخت اضافہ ہوا، یوں دکان داری اور چھوٹے چھوٹے چائے خانوں کا سلسلہ تیزی سے بڑھنا شروع ہوا۔ موجودہ نیا بازار جو اب پختہ دکانوں، مختلف ہوٹلوں اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے، میں 1985 تک اکثریتی دکانیں لکڑی کی چوکور ڈیزائن کی ہوا کرتی تھیں، جنہیں بلتی زبان میں ’ڈنگو‘ کہا جاتا تھا۔ مقامی شنا زبان میں بھی سٹور کو ڈاݨو کہا جاتا ہے۔
اسی مرکزی بازار کے ایک ڈنگو میں حیدری کا چائے خانہ تھا، جس کی تنگ بینچوں پر بیٹھ کر لوگ شوق سے چائے پیتے تھے۔ جب بھی بازار میں کسی کو چینی کی چائے کی طلب ہو تو وہ فوراً حیدری کے چائے خانہ کا رخ کرتا اور پھر ایک کپ پر اکتفا نہ کرتا بلکہ چائے کے کئی دور چلتے رہتے۔ حیدری کی چائے کا ذائقہ ہی ایسا تھا کہ ہر چائے کے شوقین کی زبان پر اس کا نام تھا، یوں چینی کی چائے اور حیدری لازم و ملزوم ہو گئے تھے۔
حیدری کا پورا نام حاجی حیدر تھا، حیدری ان کا تخلص تھا، یوں وہ حاجی حیدر سے صرف حیدری کہلائے اور یہی نام زبان زد عام ہو گیا۔ حیدری کا تعلق کھرمنگ کے دورافتادہ اور لائن آف کنٹرول کے قریب برسیل گاؤں سے تھا، جہاں قدیم ایام سے چلاس سے آئے ہوئے شنا زبان بولنے والے آرین قبائل بستے ہیں۔
برسیل تین بڑے دیہات بڑوگروم، نگیال اور سنگالو پر مشتمل ہے اور حیدری کا خاندانی گاؤں نگیال ہے۔ اس کے خاندان کا نام پیومݨے ہے، جو آٹھ گھرانوں سے بڑھ کر اب 12 ہو گئے ہیں۔
کھرمنگ میں برسیل، گنگنی، برولمو، بلارگو اور میموش کے علاقے 48-1947 کی جنگ آزادی اور 1971 کی جنگ کے دوران زیادہ متاثر رہے کیونکہ یہ علاقے لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب واقع ہیں، اسی لیے سرحد جب بھی گرم ہوتی ہے تو لوگ وہاں سے اٹھ کر سکردو کا رخ کرتے ہیں۔
حیدری نے الڈینگ کھرمنگ میں ہی چائے کا کھوکا کھولا اور روٹی پانی کی جنگ میں جُت گئے مگر معاشی حالات نہیں سدھرے تو گھر بار سمیٹ کر سکردو کا رخ کیا۔ 1978 میں انہوں نے سکردو کے ایک ڈنگو میں چائے بنانی شروع کی اور وہیں سے پھر ایک نئی کہانی شروع ہوئی۔
ابتدا میں ان کی چائے پر کسی نے خاص توجہ نہیں دی لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا، وہ صبح سے شام تک ڈنگو میں اپنی ڈیوٹی نبھاتے اور اگلے دن پھر وہی انتظار۔ آہستہ آہستہ اکا دکا گاہک آتے گئے اور پھر ان کی چائے کا ذائقہ لوگوں کے منہ کو لگتا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ ہی عرصے بعد ایک تو ان کی چائے کا مزہ سر چڑھ کر بولنے لگا، دوسری طرف ان کا اندازِ گفتگو نہایت میٹھا اور محبت سے بھرا ہوا ہوتا تھا، یوں لوگ ان کی چائے کے ساتھ ساتھ ان کی باتوں کے بھی گرویدہ ہوتے گئے۔
ان کے کھوکھے میں عام مزدور سے لے کر سیاسی اور کاروباری شخصیات تواتر سے آنے لگیں، اس طرح یہ چائے خانہ مقامی چوپال کی حیثیت اختیار کر گیا جہاں دنیا بھر کے موضوعات بھی زیر بحث رہتے۔
حیدری سب کے ساتھ گھل مل جاتے مگر زیرک تھے۔ ہر کسی کے مرتبہ اور مقام کا خاص خیال رکھتے اور عزت و احترام سے پیش آتے۔
ہمارے کئی عزیز ابتدا سے ہی حیدری کے چائے خانہ کے گاہک رہے ہیں بلکہ گاہک سے بڑھ کر ان کا رشتہ دوستی میں بدل گیا تھا۔
ان میں سے ایک ہمارے چچا حاجی اکبر حسین تھے جنہیں اس ناپائیدار دنیا سے رخصت ہوئے کئی سال گزر گئے ہیں۔ ان کا روز کا معمول تھا کہ جونہی بازار پہنچتے حیدری کی چائے سے دن کا آغاز کرتے تھے ۔ چاہے دن کو کہیں اور جتنی بار چائے پی لی ہو لیکن جب تک حیدری کی چائے نہ ملے انہیں قرار نہیں ملتا تھا اور یہ حال کئی اور آشفتہ سروں کا تھا۔
حیدری فخر سے اپنی چائے کو مریضان محبت کے لیے شافی قرار دیتے تھے۔ سال 2000 میں انہوں نے جگہ بدلی اور مہاجر بازار کے نکڑ پر اپنا چائے خانہ کھولا۔ دکان پرانی اور عام مٹی گارے کی بنی ہوئی تھی۔ ان کے گاہک ان کے ساتھ ساتھ مہاجر بازار چلے آئے اور وہی رونق برقرار رہی جو پہلے تھی۔
انہوں نے چائے خانے کی دیوار میں ایک بورڈ آویزاں کر رکھا تھا جس میں اپنی چائے کے بارے میں فی البدیہہ آزاد شاعری لکھی ہوئی تھی۔ یہ مختلف مصرعوں کا آمیزہ تھی۔ اس میں آپ عروض و قوافی مت دیکھے بسں جذبات ملاحظہ کریں:
سکردو سب کے ہوٹل ہے، حیدری کا ٹوٹل ہے
مریضان محبت کو حیدری کی چائے کافی ہے
صدا آتی ہے یہی پیالوں سے کہ پیو اللہ شافی ہے
ایک پیا تو شافی، دو پیا تو کافی تین پیا تو معافی ہے
سکردو بڑا شہر ہے لندن سے کم نہیں
چائے حیدری کی ہے زم زم سے کم نہیں
ہائے ہائے یہ دنیا تو فانی ہے
یہ حیدری کے کیتلی کا پانی ہے
اور واقعتاً زندگی کیتلی کے پانی کا بلبلہ ہے جو لمحہ بھر کے لیے ابھر کر پھر عالم بسیط میں غائب ہو جاتا ہے۔ اسی بلبلے کی مانند 2016 حاجی حیدر حیدری اس جہان رنگ و بو سے اگلے جہاں چلے گئے۔ ان کے گاہک جو اب ان کے گاہک نہیں بلکہ دوست اور قبیلے کے فرد بن گئے تھے، بڑے اداس ہوئے۔
کچھ عرصہ ویرانی رہی پھر منجھلے بیٹے غلام محمد نے اس ٹھیہ کو سنبھالا۔ انہیں دو کیتلی، ایک چولہا اور چند پیالے وراثت میں ملے مگر یہ تو صرف مادی اشیا تھیں، ان کے ساتھ گاہگوں کی محبت اور شفقت کا جو بیش بہا ورثہ تحفے میں ملا، اس کی قیمت کا تعین پیسوں میں کہاں ممکن ہے۔
غلام محمد نے تیز پتی، مخصوص خوشبو اور ذائقے والی وہی چائے بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جو حیدری کی پہچان بن گئی تھی۔ چائے بنانے والے ہاتھ بدل ضرور گئے مگر ذائقے اور روایت کا سفر آج بھی جاری ہے۔