سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست منگل تک ملتوی کر دی ہے۔
پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے پیر کی دوپہر دو بجے سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے درخواست پر ابتدائی سماعت کرتے ہوئے اسے منگل یعنی کل تک کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔
بینچ میں جسٹس اعجازالحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’ملکی تاریخ میں الیکشن کی تاریخیں بڑھانے کی مثالیں موجود ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت تاریخ بڑھانے کو قومی سطح پر قبول کیا گیا۔ اس وقت تاریخ بڑھانے کے معاملے کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سنہ 1988 میں نظام حکومت تبدیل ہونے کی وجہ سے الیکشن میں تاخیر ہوئی تھی۔ کیا آئین میں نگراں حکومت کی مدت کے تعین کی کوئی شق موجود ہے؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’انتخابات صوبے کی عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ اہم ایشوز اس کیس میں شامل ہیں جس میں سے فیصلے پر عملدرآمد بھی ایک معاملہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن، صدر پاکستان کی دی گئی تاریخ کو ختم کر سکتا ہے؟ اس معاملے پر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود نہیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’عدالتی حکم پر عملدرآمد ہائی کورٹ کا کام ہے۔‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا۔ سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔‘
اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے یکم مارچ کو انتخابات کی تاریخ دینے کا فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن نے آٹھ مارچ کو پنجاب میں انتخاب کا شیڈول جاری کیا، گورنر کے پی نے عدالتی حکم کی عدولی کرتے ہوئے تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔‘
وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے صدر کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے نیا شیڈول جاری کیا، الیکشن کمیشن نے تین بار خلاف ورزیاں کیں، 13 مارچ کو الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو منسوخ کر دیا، الیکشن کمیشن نے آٹھ اکتوبر کی نئی تاریخ دی۔‘
’الیکشن کمیشن کو نئی تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں تھا، الیکشن کمیشن نے 90 روز کی مقررہ حد کی خلاف ورزی کی، آئین میں الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے یا تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔ 90 روز سے زیادہ کی تاریخ کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عملدرآمد کرائے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کر سکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی ہے۔ کیا یہ الیکشن کمیشن کے موقف میں تضاد نہیں ہے؟ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام پانچ ججز کے دستخط ہیں، ایسا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے دو فیصلے ہوں۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے، کیا ایسے معاملے میں آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتا ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ آرٹیکل 254 کا سہارا کام کرنے کے بعد لیا جا سکتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کام کرنے سے پہلے ہی سہارا لے لیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا۔‘
عدالت نے الیکشن کمیشن، وفاق پنجاب اور کے پی کے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
22 مارچ کو قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’30 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں، اس لیے چاہتے ہیں کہ اکتوبر میں پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہوں،‘ جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل کو مقرر پنجاب کے صوبائی انتخابات ملتوی کرتے ہوئے آٹھ اکتوبر کی نئی تاریخ دی تھی۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن اور حکومتی فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں مشترکہ آئینی درخواست دائر کی تھی۔
25 مارچ کو دائر کی گئی اس آئینی درخواست میں وفاق، پنجاب، خیبرپختونخوا، وزارت پارلیمانی امور، وزارت قانون اور کابینہ کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔
پی ٹی آئی نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے آئینی مینڈیٹ اور عدالت کے فیصلے سے انحراف کیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو شیڈول کے مطابق 30 اپریل کو صوبے میں انتخابات کروانے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیے جانے کی استدعا کی گئی تھی۔
صدر پاکستان عارف علوی نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کے نام خط میں کہا تھا کہ وزیراعظم صوبائی حکومتوں اور وفاقی محکموں کو توہین عدالت سے بچنے اور وقت پر انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔