پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے جمعرات کو پنجاب میں انتخابات کے التوا کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت التوا کے خلاف جمعے کو سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔
آج اسلام آباد میں اسد عمر اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پنجاب میں صوبائی انتخابات 30 اپریل کو ہی ہونا ہیں کیوں کہ آئین میں 90 دنوں میں الیکشن کرانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔
ان کے بقول الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کر کے آئین شکنی کی، جس پر ’الیکشن کمیشن کے پانچ اراکین کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہونا چاہیے۔‘
الیکشن کمیشن نے بدھ کی رات پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والے ایک حکم نامے کے مطابق 30 اپریل کو پنجاب میں ہونے والے انتخابات ملتوی کیے جا رہے ہیں اور اب یہ الیکشن اسی سال آٹھ اکتوبر کو ہوں گے۔
حکم نامے میں الیکشن ملتوی کرنے کی وجہ امن و امان کی صورت حال اور مالی و انتظامی بحران کو قرار دیا گیا جب کہ صدر مملکت کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ آئین توڑنے والوں کے خلاف سپریم کورٹ جا رہے ہیں کیوں کہ آئین کو بچانا سپریم کورٹ کا کام ہے۔
’ہمیں امید ہے کہ ججز آئین کی پاس داری کریں گے اور عوام ان کے پیچھے کھڑی ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے، اس لیے پنجاب میں صوبائی انتخابات 30 اپریل کو ہی ہوں گے۔
فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی سپریم کورٹ پر حملے کے لیے بلایا گیا۔
عمران خان کی جانب سے انہیں قتل کی کوشش کے بارے میں دیے گئے بیان پر سابق وزیر کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کا اس بارے میں جے آئی ٹی بنانے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور وہ انتظامیہ سے مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں۔
پی ٹی آئی کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ
اسد عمر نے پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کر لیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متصادم ہے۔
ان کے بقول: ’الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف بیرسٹر علی ظفر پی ٹی آئی کی پٹیشن پر کام کر رہے ہیں جو کل سپریم کورٹ میں دائر کر دی جائے گی۔‘
اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ ججز کو ان کی پٹیشن پر آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے اور عوام ججوں کی پشت پر کھڑی ہے۔
’پشاور، اسلام آباد، لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتا، معلوم نہیں انہوں نے کونسا آئین دیکھ کر انتخابات کی نئی تاریخ کا اعلان کر دیا۔‘
ان کے بقول: ’حکومتی اتحادیوں کی اس خواہش کا اظہار کہ ملک میں ایک ہی دن الیکشن ہونے چاہییں، کے چند گھنٹے بعد الیکشن کمیشن نے اس خواہش کی تکمیل کر دی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئین سے جو انحراف کیا جا رہا ہے اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی جائے گی۔‘
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آج پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کو ’بہترین فیصلہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر عمران خان گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کرانا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں سکیورٹی چیلنجز اور شدید معاشی بحران درپیش ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اکٹھے انتخابات میں صرف ایک اضافی بیلٹ پیپر درکار ہوتا ہے۔ ’کیا یہ بھلے والی بات نہیں کہ انتخابات ایک ساتھ ہوں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب کے انتخابات ملتوی کرنے کے بعد کی صورت حال انتہائی افسوس ناک ہے۔
’آئین میں واضح لکھا ہوا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات ہونا چاہیے اور انتخابات میں تاخیر یا تاریخ آگے پیچھے کرنے کی گنجائش نہیں۔‘
احمد بلال کے مطابق پاکستان میں غیر معمولی حالات ہیں اور یوں لگتا ہے کہ حکومت نے بظاہر الیکشن کمیشن کو آمادہ کر لیا ہے کہ حکومت کے پاس نہ پیسے ہیں اور نہ انتخابات کے لیے سیکورٹی میسر ہے۔
’جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ الیکشن کا انعقاد قانونی لحاظ سے تو ضروری ہے لیکن کچھ ایسی وجوہات پیدا ہو جائیں کہ وہ عملی طور پر ممکن نہ ہوں اور الیکشن کمیشن ان وجوہات سے مطمئن ہو تو شیڈول میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔
’اور اگر مطمئن نہ ہوتا تو آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت واضح کر دیتا کہ انتخابات دیے گئے شیڈول کے مطابق ہی ہوں گے۔‘
ان کا خیال تھا کہ الیکشن کمیشن وزارت دفاع، داخلہ اور خزانہ کی جانب سے دی گئیں وجوہات سے مطمئن ہوا اور شیڈول تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
’اس سے کچھ سوالات پیدا ہوں گے کہ الیکشن کمیشن نے جن وجوہات پر الیکشن ملتوی کیے ہیں وہ واقعی اتنی غیر معمولی تھیں کہ آئین میں دی گئی مدت سے آگے جا کر انتخابات کروانے پڑیں؟
’یہ معاملہ اب سپریم کورٹ جائے گا جو اس سے متعلق فیصلہ کرے گی۔‘
قانونی ماہر سمیر کھوسہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین سے تجاوز کرتا ہے۔ ’آئین کی شک 224 کے مطابق اسمبلی کی تحلیل ہونے کی صورت میں عام انتخابات 90 دن کے اندر ہونا ہوتے ہیں۔
’سپریم کورٹ ان انتخابات کے بارے میں فیصلہ دے چکی ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ صدر نے الیکشن کمیشن کے ساتھ دینی ہے۔
’صدر مملکت نے یہ تاریخ کمیشن کی تجویز کردہ تاریخوں میں سے دی۔ یہ واضح ہے کہ پھر الیکشن کمیشن یک طرفہ طور پر تاریخ اکتوبر میں مقرر نہیں کر سکتا۔
’اگر سپریم کورٹ حالیہ فیصلے پر از خود نوٹس لیتا ہے تو کمیشن کا فیصلہ کمزور ہوگا جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے امن و امان کی صورت حال وجہ بتانا کافی نہیں۔ ماضی میں پاکستان میں انتخابات موجودہ حالات سے بدتر امن و امان کی صورت حال میں بھی ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ بار نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی اس خلاف ورزی سے ملک میں انتشار اور انارکی پیدا ہو گی۔
الیکشن کمیشن نے ’اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ جمہوریت کی بحالی اور وقت پر الیکشن حالات کا تقاضا ہیں۔‘
قانونی ماہر سلمان اکرم راجہ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری تاریخ میں ایک اور سیاہ لمحہ ہے۔
قانونی ماہر ریما عمر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں چھ ماہ کی تاخیر اور آرٹیکل 254 کا جواز دینا قانونی طور پر ناقص اور مضحکہ خیز ہے۔