لاہور ہائی کورٹ نے بغاوت کے قانون کے سیکشن 124 اے کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے جمعرات کو ابوذر سلمان نیازی سمیت دیگر کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا، جس کا وکلا رہنماؤں نے خیر مقدم کیا ہے۔
یہ متنازعہ قانون 1870 میں برطانوی سامراج کی جانب سے اس خطے میں متعارف کروایا گیا تھا۔ خود برطانیہ نے اپنے ملک میں اس قانون سے 2010 میں جان چھڑائی تھی لیکن پاکستان اور انڈیا میں یہ قانون آج تک استعمال ہو رہا ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے 2022 میں تاہم اس قانون کو معطل کر دیا تھا۔ البتہ یہ قانون دونوں ملکوں کی تعزیرات میں اب بھی موجود ہے۔
درخواست گزار ہارون فاروق نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ’بغاوت کی دفعہ 124 اے غداری کے نام پر اظہار رائے کی آزادی سلب کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔‘
درخواست میں بغاوت کے مقدمات کا اندراج روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔
دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے سکیشن 124 اے کا دفاع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ سیکشن آئین کا حصہ ہے، اس دفعہ پر قانون کے مطابق عمل ہونا چاہیے اور یہ سیکشن صرف بغاوت پر اکسانے یا کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں مدد دیتا ہے۔
فیصلہ سنائے جانے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے کہا: ’ہم نے اس سیکشن کو کالعدم قرار دیے جانے کا دفاع کیا اور موقف اختیار کیا کہ حکومت کے پاس بغاوت روکنے کے لیے کارروائی کا اختیار اسی دفعہ کے تحت موجود ہے۔
سماعت کے دوران درخواست گزار ہارون فاروق کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’بغاوت کا قانون 1870 میں بنایا گیا جو انگریز دور میں لوگوں کو دبانے کے لیے استعمال ہوتا رہا۔
’اس دور میں بغاوت کا قانون غلاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جس کے تحت ثبوت نہ ہونے کے باوجود کسی کے کہنے پر بھی مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے۔"
’اس کے برعکس آئین پاکستان ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔ بغاوت کے قانون کو اب بھی سکیشن 124 اے کے ذریعے انگریز دور کی طرح سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ عدالت اس قانون کی دفعہ 124اے کو کالعدم قرار دے۔‘
عدالت نے آج درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے بغاوت کے قانون کی دفعہ 124اے کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا۔
سینیئر قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا: ’آئین میں موجود دفعہ 124 اے ہمیشہ سے متنازع رہی ہے کیوں کہ اس میں شہریوں کے حقوق سلب کر کے ان سے غلاموں جیسا سلوک کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
’یہ قانون انگریز دور میں رعایا کو ظلم سے دبانے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب 21 ویں صدی ہے اور پاکستان کے آئین میں اس طرح کے قوانین کی گنجائش نہیں ہے۔‘
اشتر اوصاف کے بقول ’اس قانون کو کالعدم قرار دینے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ریاست پاکستان میں رہنے والوں کو چھٹی دے دی جائے کہ وہ آزادی اظہار رائے کی آزادی کے نام پر جو مرضی کرتے رہیں۔
’اس بارے میں مثبت اور فراغ دلی کے ساتھ مہذب معاشروں کی طرح شہریوں کے بنیادی حقوق کو مد نظر رکھ کر نئے سرے سے قانون بنانے کی ضرورت ہے۔‘
ان کے مطابق ’ملکی وقار اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہریوں کے لیے قوانین ضرور ہونے چاہییں لیکن ان کی حدود طے کی جانی چاہییں۔
’سیکشن 124 کی طرح سیاسی طور پر لوگوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بننا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’قانون میں ایسی دفعات موجود ہیں جو ایک دوسری دفعہ سے ٹکراتی ہیں اسی وجہ سے لوگوں کو انصاف بھی بروقت نہیں مل رہا۔ اس لیے 124 اے جس کے ذریعے بغاوت کا الزام عائد کر دیا جاتا ہے انہیں تبدیل کرنا لازمی ہے۔‘
ان کے مطابق ’عدالت بالکل اس طرح کے قوانین پر سوال اٹھا سکتی ہے۔ سوال اٹھانا بھی چاہیے اور پارلیمنٹ کو ایسے قوانین کا جائزہ لے کر ترامیم کرنا ہوں گی۔‘
اشتر اوصاف نے کہا کہ ’سیکشن 124 اے میں سنی سنائی باتوں پر بھی کسی کے خلاف بغاوت جیسا سنگین الزام عائد کر کے کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس قانون کو آمریت کے ادوار میں لوگوں کو خاموش رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’عدالتوں میں اس کے استعمال سے اجتناب کیا جاتا رہا جو قانون کے مطابق تو نہیں البتہ اسے خلاف قانون بھی قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے اسے آئین سے متصادم میرٹ پر قرار دیا ہے، کیونکہ ہمارا آئین تو ہر شہری کوملکی مفادات کے علاوہ آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔‘
’آئین میں اداروں کے حوالے سے ملکی مفادت کو مد نظر رکھتے ہوئے بلاوجہ مہم جوئی سے تو روکا گیا ہے، لیکن افراد کے کردار پر تو سوال ہوسکتا ہے۔‘
سینیئر وکیل اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن علی احمد کرد نے کہا کہ دفعہ 124 اے آئین سے متصادم ہے۔
’ہم تو پہلے دن سے اس کے خلاف آواز اٹھاتے آئے ہیں۔ میں نے خود چھ ماہ تک غداری کے نام پر بنائی گئی اس شق کا سامنا ٹرائل کورٹ میں کیا لیکن ثابت کیسے ہوتا؟ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی باشعور شہری غداری کا سوچے بھی۔
’اس قانون کا استعمال زیر اثر لانے کے لیے ایسے ہی ہوتا رہا جیسے انگزیز دور میں غلاموں کے لیے ہوتا تھا، آزادی مانگنے والوں کو غدار قرار دے کر سزا دی جاتی تھی تاکہ کوئی اورخوف سے آواز ہی نہ اٹھا سکے۔‘
علی احمد کرد کے بقول ’پارلیمنٹ کو ایسے قوانین میں پہلے ہی ترامیم کرنی چاہییں تھیں۔ اب بھی ایسے کالے قوانین کو تبدیل کیا جانا چاہیے تاکہ آزادی اظہار رائے کو غداری کا نام نہ دیا جاسکے تاہم حدود طے کی جانی چاہییں جیسے دنیا بھر میں ہوتا ہے۔‘
دفعہ 124 کس لیے استعمال ہوتی تھی؟
قانون دان ابوذر سلمان نیازی کے مطابق ’انگریز دور میں جب انڈین پینل کوڈ بنایا گیا تو اس میں سیکشن 124 اے شامل کیا گیا جسے لوگوں کو غلام بنا کر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
’جو بھی انگریز سرکار کے قابض ہونے مظالم یا اپنے حقوق کی بات کرتا تھا اسے غدار قرار دے کر اس دفعہ کے تحت کارروائی کی جاتی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ تقسیم برصغیر کے بعد بھی انڈیا اور پاکستان میں یہ قانون آئین کا حصہ رہا، مگر انڈیا میں بھی سپریم کورٹ نے پچھلے سال اس قانون کو معطل کر دیا۔
ابوذر کا کہنا ہے کہ ’انگزیز سرکار اس دفعہ کو انقلاب کو روکنے اور اپنی فوج کو طاقت ور بنائے رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتی تھی۔‘
سیکشن 124 کیا ہے اور اس کی کیا سزا ہے؟
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے میں کی گئی تشریح کے مطابق ’قانونی طور پر بننے والی وفاقی یا صوبائی حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسانا اور ان کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔‘
پاکستان پینل کوڈ کے مطابق ’کوئی بھی الفاظ کے ذریعے، بولے یا تحریری، یا اشاروں سے، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، یا دوسری صورت میں، نفرت یا حقارت میں لانے کی کوشش کرتا ہے، یا جوش یا بیزاری پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، قانون کے ذریعے قائم کردہ وفاقی یا صوبائی حکومت عمر قید کی سزا جس میں جرمانہ شامل کیا جا سکتا ہے، یا قید جو تین سال تک ہو سکتی ہے، جس میں جرمانہ شامل کیا جا سکتا ہے، یا صرف جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔‘
کن کن کو ان مقدمات کا سامنا کرنا پڑا
پاکستان میں بغاوت کے الزام میں مقدمات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ کئی سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں نے بغاوت کے الزام میں مقدمات کا سامنا کیا ہے۔
کینیا میں قتل کیے جانے والے سینیئر صحافی اور اینکرپرسن ارشد شریف اور شہباز گل کے خلاف حالیہ دنوں میں یہ مقدمات درج کیے گئے تھے۔
تقریباً 19 برس پہلے مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید ہاشمی کے خلاف اکتوبر 2003 میں درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں جاوید ہاشمی کو 23 برس قید کی سزا ہوئی تھی تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
یہ مقدمات جمہوری اور فوجی حکومت کے دوران قائم کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے قیام کے کچھ عرصہ بعد بغاوت کے الزام میں مقدمے درج ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ پہلا مقدمہ مارچ 1951 میں درج ہوا جو ’پنڈی سازش کیس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مقدمہ میں میجر جنرل اکبر خان، شاعر فیض احمد فیض، بائیں بازو کے رہنما سجاد ظہیر اور میجر اسحاق سمیت دیگر افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔
سابق صدر جنرل ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی ایک سازش کا انکشاف ہوا اور اس پر بغاوت کا مقدمہ شیخ مجیب الرحمان سمیت دیگر افراد کے خلاف درج کیا گیا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپوزیشن لیڈر خان ولی خان کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی اور سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی۔ ولی خان سمیت ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں میرغوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور سابق گورنر ارباب سکندر خان سمیت دیگر کے خلاف حیدر آباد جیل میں ٹرائل شروع ہوا اور اسی وجہ سے اسے ’حیدر آباد سازش کیس‘ کا نام ملا۔
اس مقدمے کے بعد بغاوت کے الزام میں مقدمات کے اندراج کا سلسلہ رک گیا لیکن نواز شریف کے تیسرے دورے حکومت میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ایک تقریر کی بنا پر ان کے خلاف بغاوت اور اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں مقدمہ درج ہوا اور اسی مقدمے میں الطاف حسین کو سزا سنائی گئی۔
مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف کو بھی ریاست مخالف بیان دینے پر لاہور میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ضمانت مسترد ہونے پر گرفتار بھی کیا گیا۔
بغاوت کا الزام پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر پر بھی لگا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر پر بھی متنازع بیان پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ اس مقدمے میں سابق وزیراعظم نواز شریف بھی نامزد ہوئے۔ تاہم یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔