رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں کم عمری کی شادی روکنے کا بل کئی سالوں سے التوا کا شکار ہے۔
اس حوالے سے صوبے میں ابھی تک 1929 کا قانون نافذ ہے جس میں لڑکے کی عمر 18 سال اور لڑکی کی 16 سال رکھی گئی تھی۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر جرمانہ بھی بہت معمولی ہے تاہم اب اس معاملے پر عوامی رائے ہموار ہو رہی ہے کیوں کہ سندھ سمیت دیگر صوبوں میں بھی کم عمری کی شادیاں روکنے پر کام جاری ہے۔
کم عمری کی شادی روکنے کی ایسی ہی ایک کوشش بلوچستان میں کی گئی۔
’معاملہ ایسا تھا کہ پولیس بھی ڈری ہوئی تھی، جس کے باعث انہوں نے گلی میں بھاری نفری تعینات کردی تھی۔ جب ہم لوگ گھرمیں داخل ہوئے تووہاں شادی کا ماحول تھا، ڈھولک بج رہا تھا، بچیاں گا رہی تھیں۔‘
’ ایک دم پولیس کو سامنے دیکھ کر خواتین گھبرا گئیں، لیکن جب میں اور میری خاتون ساتھی سامنے آئیں تو انہوں نے سمجھا کہ شاید ہم بھی شادی میں شرکت کرنے آئی ہیں۔‘
’انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہہ کرچائے کی پیش کش کی لیکن جب ہم نے ان کو اپنے آنے کی وجہ بتائی تو یہ سن کر اس گھرمیں شور شرابا شروع ہو گیا، خواتین نے مزاحمت شروع کردی۔‘
یہ کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی متحرک سماجی کارکن حمیدہ نور کا، جنہوں نے ایک کم عمر بچی کی شادی کو روکنے کے عمل میں شرکت کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس کے لیے بھی یہ پہلی دفعہ تھا کہ وہ ایک شادی کی کوشش کو ناکام بنانے جا رہی تھی۔ جس میں گھر کے مکینوں اور محلے والوں کی طرف سے بھی سخت مزاحمت کا خطرہ تھا۔‘
حمیدہ نور نے انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سال 2019 کے دوران ہم گھریلو تشدد کے واقعات کے حوالے سے کام کر رہے تھے تو ہماری ایک رکن کو کلی قمبرانی کوئٹہ کےعلاقے سے کال موصول ہوئی کہ یہاں پرایک کم عمر بچی کی شادی ہو رہی ہے اور مرد بڑی عمرکا اور شادی شدہ بھی ہے۔‘
ان کے مطابق ’جب ہمیں یہ رپورٹ ملی تو اطلاع دینے والے نے بتایا کہ کل اس بچی کی شادی ہونے والی ہے۔ جس پر ہم نے فوری طور پر اس معاملے کو سوشل میڈیا پر سامنے لایا اور دوسرے لوگوں نے بھی اس پر ردعمل دینا شروع کیا۔‘
حمیدہ نور کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ہم نے متعلقہ پولیس سے رابطہ کیا، اعلیٰ حکام سے بات کے بعد انہوں نے ہمیں سریاب تھانے جانے کا کہہ دیا اور پھر ہم وہاں گئے اور ایس ایچ او سے بات کی۔ ان کو اطلاع مل گئی تھی، پہلے ہم نے مقامی ذرائع سے اس کی تصدیق کی اور پھر وہاں چھاپہ مارنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم پولیس نے ہمیں بتایا کہ علاقہ حساس ہے اور قبائلی علاقہ ہے ہو سکتا ہے کہ لوگ مزاحمت کریں، لیکن اس کے باوجود ہم نے جانے کا فیصلہ کیا۔‘
حمیدہ نے مزید بتایا کہ ’میرے ساتھ ایک خاتون وکیل قمرالنسا اور ان کے علاوہ عتیق الرحمان بھی تھے۔ ہم لوگ اس کو قانونی طریقے سے نمٹانا چاہ رہے تھے۔ اس دوران ہم نے دوسرے اداروں کے ساتھ بھی رابطہ کیا جو بچوں کے حقوق پر کام کرتے ہیں، لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ اس کو روکنے کے عمل میں شامل ہونے سے معذرت کر لی۔‘
حمیدہ کے مطابق ’ہم تین افراد کیچی بیگ تھانے گئے اوروہاں ایس ایچ او سے بات کی۔ وہاں ہم نے دوبارہ معلومات کر کے تصدیق کروائی کی واقعی شادی ہو رہی ہے۔ جس پرپولیس نے چھاپہ مارنے کا فیصلہ کیا اور ہم بھی ان کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ پولیس نے ہمیں کہا کہ یہ ان کے لیے پہلا کیس ہے جس میں وہ کسی شادی کو روکنے جا رہے ہیں، ان کو علم نہیں کہ یہ کیس کس قانون کے تحت آتا ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اس کے بعد پولیس کی نفری کے ہمراہ شادی کی جگہ پر چلے گئے اور وہاں پر مہندی کی رسم چل رہی تھی، لوگ جمع تھے، ہم وہاں داخل ہو گئے اور ہمارے ساتھ خواتین پولیس اہلکار بھی تھیں۔ خواتین ایک دم بوکھلا گئیں اور انہوں نے پہلے ہمیں روکنے کی کوشش کی لیکن پھر ناکام ہونے پر بچی سے بات کرنے پر راضی ہوئے۔‘
حمیدہ نور نے بتایا کہ ’جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ ایک بچی دلہن بنی بیٹھی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس کی عمر کتنی ہے تو وہ پہلے ڈر گئی اور کہا کہ وہ 18 سال کی ہے، میں نے پوچھا کہ کون سی کلاس میں پڑھتی ہو تو اس نے جواب دیا کی وہ چھٹی جماعت میں پڑھ رہی ہے، شناختی کارڈ طلب کرنے پر اس نے کہا کہ وہ نہیں بنا۔‘
اس کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنی طرف سے تمام معلومات حاصل کیں جس پر ہمیں اس کا مکمل یقین ہوگیا کہ بچی کم عمر ہے۔ پولیس نے فیصلہ کیا کہ بچی کو ساتھ تھانے لے جا کر اس کے والدین کو بھی طلب کریں گے۔ لیکن ہم نے انہیں اس سے منع کیا اور پھر ہم دولہے کے پاس گئے اوراس کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ پولیس نے ان کو اپنے تھانے کے بجائے دوسرے تھانے منتقل کیا تاکہ اگر کوئی مسئلہ ہو تواس کو سنبھالا جا سکے۔‘
حمیدہ کے مطابق ’تھانے میں ہمارے وکلا نے پولیس کو قانون کے حوالے سے بتایا اوران سے مقدمہ درج کرنے کا کہا جس پر بعد میں پولیس نے مقدمہ درج کر لیا اور یہ کیس چلتا رہا۔ دولہے نے اپنی ضمانت کرا لی۔ تاہم اس کیس سے یہ ہوا کہ بچی کی شادی اس سے نہ ہو سکی، وہ دوبارہ سکول جانے لگی اور باقی لوگوں کو بھی اس سے سبق ملا کہ اس طرح کا عمل کرنا مشکل کا باعث بن سکتا ہے۔‘
کم عمری کی شادی کے معاملے کی قانونی حیثیت
فیڈرل شریعت کورٹ اسلام آباد نے کم عمری کی شادی کے ایک واقعے کا 21 نومبر 2022 کو سوموٹو نوٹس لیا تھا۔ جس پر عدالت نے بلوچستان حکومت سے اس حوالے سے قانون سازی اور اس کے ڈرافٹ کو بھی اگلی پیشی سے قبل جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔‘
اس کے بعد 21 مارچ 2023 کو فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین شیخ نے سوموٹو کیس، جس میں عدالت نے بلوچستان کے ضلع خضدارمیں پانچ سالہ بچی کی شادی کا نوٹس لیا تھا، کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران عدالت میں سرکاری افسران نے رپورٹ جمع کرائی کہ بلوچستان نے ’دی بلوچستان چائلڈ میرج پروبیشن ایکٹ 2021‘ کے تحت بل کا ڈرافٹ بنا لیا ہے جس کو جلد کابینہ میں پیش کر کے اس کی منظوری لینے کے بعد بلوچستان اسمبلی میں پاس ہونے کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔‘
اس حوالے سے بل کا ڈرافٹ بنانے والے بلوچستان کے ادارے سوشل ویلفیئر سے رابطہ کیا گیا تو ان کے ایک عہدیدار ناصر بلوچ نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے فیڈرل شریعت کورٹ کے نوٹس کے بعد بل کا ڈرافٹ بنا کر عدالت میں جمع کرا دیا تھا۔‘
ناصر بلوچ کے مطابق ’ہم نےاس بل کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ سے بھی مشاورت کی اور اس پر جو اعتراضات تھے، ان کو دور کیا۔ اس حوالے سے ہم نے بلوچستان کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن سے بھی مشاورت کرنے کے بعد اس کو بلوچستان کے محکمہ قانون سے پاس کروا کے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کو بجھوا دیا ہے، تاکہ وہ اسے کابینہ کو بھیج دیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بل پر پہلے اسمبلی اورکابینہ میں اعتراضات اٹھائے گئے تھے، جس کی وجہ سے یہ بار بار التوا کا شکار رہا ہے۔ تاہم اس بار تمام اعتراضات دور کر دیے گئے ہیں، امید ہے یہ بل جلد کابینہ کی منظوری کے بعد اسمبلی سے بھی پاس ہو جائے گا۔‘
غیر سرکاری اداروں کی جدو جہد
ادھر کم عمری کی شادی اور اس حوالے سے قانون سازی کے لیے 2013 سے ایک غیر سرکاری تنظیم سحر کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے والے بہرام لہڑی کہتے ہیں کہ ’یہاں پر ابھی تک 1929 کا قانون لاگو ہے جس میں لڑکی کی عمر کم رکھی گئی ہے۔‘
بہرام لہڑی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم اس پر کئی سالوں سےجدوجہد کر رہے ہیں اور ہمیں اس معاملے کی سنگینی کا احساس اس وقت ہوا جب ہم زچہ اور بچہ کے حوالے سے کام کر رہے تھے تو علم ہوا کہ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ جس کی ایک وجہ کم عمری کی شادی بھی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کے بعد ہم نے باقاعدہ اس معاملےکو اٹھایا اور ایک بل تمام متعلقہ لوگوں کی مشاورت سے بنایا اور کمیونٹی کا آگاہ بھی کیا۔ اس بل میں ہم نے لڑکے اور لڑکی کے لیے شادی کی عمر 18 سال رکھی تھی اور اس کی خلاف ورزی پر جرمانے اور سزا میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔‘
بہرام کے مطابق ’بل میں پولیس کو بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے کیس کے سامنے آنے پر مقدمہ درج کر کے اس شادی کو روکنے کا اختیار رکھتی ہے، جو اس سے قبل کے قانون میں نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت تھی اور ہم نے رکن اسمبلی ڈاکٹر شمع اسحاق کے مل کر اس پر کام کیا اور ان تمام چیزوں کو پرکھنے کے بعد اسے اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہرام کے بقول ’اجلاس میں پیش ہونے کے بعد اس وقت پشتونخوا میپ کے رکن اسمبلی سردار رضا بڑیچ نے اس پر اعتراض کیا کہ ایسے قوانین نہیں بننے چاہییں جس سے ہماری قبائلی روایات میں خلل پڑے۔ اس طرح مذہبی جماعت جمعیت نے بھی اس کی مخالفت کی اور بل کو پیش نہیں ہونے دیا گیا اور اسے واپس کر دیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ہمت نہیں ہاری اور پھر کوشش کر کے تمام لوگوں جن میں علما کرام بھی شامل ہیں، کو بل کو دکھا کر پوچھا کہ کیا اس میں اسلام مخالف کچھ شامل ہے؟ انہوں نے اس کی نفی کی اور ہم نے اسے دوبارہ اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل کروایا۔ لیکن 2018 کے اسمبلی کا آخری سیشن تھا اور وقت ختم ہونے پر یہ بل پیش نہ ہو سکا جو ابھی تک زیر التوا ہے۔‘
بہرام کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں 1929 کا قانون چل رہا ہے، جس میں لڑکی کی عمر 16 سال ہے، لڑکے کی 18 سال ہے۔ دوسرا اس قانون کے تحت جو سزا مختص ہے وہ ایک ہزار روپے جرمانہ اور ایک مہینہ قید کی سزا ہے، جو اس جرم کے حساب سے بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پولیس کو اختیار نہیں کہ وہ جا کر اس شادی کو روک سکے، جب تک کہ کوئی جا کر مقدمہ درج کرنے کی درخواست نہ کرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ بلوچستان میں قبائلی معاشرہ ہے اور بہت لوگ اس معاملے میں مقدمہ درج کرانے کے لیے تیار ہوتے ہیں، اس لیے ہماری کوشش یہی رہی ہے کہ اس قانون میں ترمیم کر کے اسے موجودہ حالات سے ہم آہنگ کیا جائے۔‘
اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کے رکن اسمبلی ملک سکندر ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو کم عمری کی شادی کے بل کے حوالے سے بتایا کہ ’اگر بل پیش کیا جاتا ہے اس کو دیکھ کر ہم حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کریں گے۔‘
بل کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں کا موقف
دوسری جانب پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی نصراللہ زیرے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کم عمری کی شادی روکنے کے حوالے سے بل کو پیش کرنےمیں جمعیت علمائے اسلام رکاوٹ رہی ہے، ہم نے پہلے بھی اس کی حمایت کی تھی کہ کم عمر بچیوں کی شادی کرنا معاشرتی حوالے سے درست نہیں ہے، اب اگر بل اسمبلی میں آئے گا تو پھر دیکھیں گے۔‘
ماہر قانون کی رائے
ماہرقانون قمرالنسا ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ ’بلوچستان میں کم عمری کی شادی کا جو قانون موجود ہے وہ 1929 کا ہے جو پاکستان بننے سے بھی بہت پہلے کا ہے اور اس میں شادی کے لیے لڑکی کی عمر16 سال رکھی گئی ہے۔‘
قمرالنساایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس جرم کے ارتکاب پر نکاح خواہاں اور گواہاں کی گرفتاری ہوسکتی ہے لیکن اس میں سزا اور جرمانہ بہت ہی کم ہے جس کے باعث لوگ اس قانون سے ڈرتے نہیں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ اس قانون میں ترمیم ہونی چاہیے اور نیا قانون ہے اس کو نافذ کرنا چاہیے، اس نئے ڈرافٹ میں جرمانے کی رقم اور سزا بھی بڑھادی گئی ہے، اس قانون کے تحت نکاح خواہاں، گواہان سمیت دلہا دلہن کے والدین کو بھی گرفتارکیا جاسکتا ہے، ایسی کسی شادی کے خلاف کوئی بھی تھانے میں درخواسٓت دے سکتا ہے اور پولیس اس شادی کو روکنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔‘
قمرالنسا نے بتایا: ’اس قانون کی راہ میں رکاوٹ ہمارے نمائندے ہیں، جن کو اس پراعتراضات ہیں اور یہ بل پہلے بھی دو دفعہ اسمبلی کے ٹیبل ہوچکا ہے لیکن اعتراض کے بعد اسے واپس کردیا گیا تھا۔‘
وہ مزید بتاتی ہیں کہ اس بار ہمارے پاس سندھ کا قانون موجود ہے، جنہوں نے سابقہ 1929 کے قانون میں ترمیم کرکے شادی کے لیے لڑکی کی عمر 18 سال کر دی ہے، اس کے خلاف سندھ سے کسی شخص نے فیڈرل شریعت کورٹ میں درخواست دی کہ یہ قانون اسلام اور سنت کے خلاف ہے۔
قمرالنسا کے مطابق: ’فیڈرل شریعت کورٹ نے اس درخواست کی سماعت کی اور یہ فیصلہ دیا کہ حکومت یا حاکم وقت کو یہ اختیار ہے کہ وہ لڑکیوں کی شادی کے لیے عمر کے حد کا تعین کرے، اگر سندھ اسمبلی نے شادی کے لیے لڑکی کی عمر 18 سال رکھی ہے توفیڈرل شریعت کورٹ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، جس کے بعد یہ درخواست خارج کردی گئی اب ہمارے پاس یہ فیصلہ موجود ہے، جو اس ہمارے بل کو پاس کرنے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔