کراچی کی ایک مقامی عدالت نے فیکٹری میں بھگدڑ سے 11 اموات کے کیس میں ہفتے کو کارخانے کے مالک اور دو مینیجرز سمیت 10 ملزمان کو پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
ملزمان نے عدالت سے رہائی کی استدعا کی تھی، جسے جوڈیشل مجسٹریٹ غربی نے مسترد کر دیا۔
کراچی کے صنعتی زون سائٹ کی نورس چورنگی سے متصل فیکٹری میں جمعے کو زکوٰۃ کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے کم از کم 11 اموات کا مقدمہ سائٹ تھانے اے کی پولیس نے فیکٹری مالک، مینیجرز اور چوکیدار کے خلاف درج کیا تھا۔
10 ملزمان کی خلاف درج ایف آئی آر میں لاپرواہی اورغفلت کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
مقدمے کے متن میں لکھا گیا کہ زکوٰة کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے اموات ہوئیں۔
ایف آئی آر کے مطابق فیکٹری مالک عبدالخالق، دو مینیجرز جسیم اور اسلام، ڈائنگ انچارج علی محمد یونس، شفٹ انچارج خورشید احمد، ڈائنگ آپریٹر ساجد علی، غفران علی، اظہر محمود، علی امجد، حسین زادہ کی غفلت کے باعث یہ واقعہ پیش آیا۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322، 34 اور 337 کی شق ایچ دو کے تحت دائر مقدمے میں کہا گیا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی فیکٹری مالک عبدالخالق فیکٹری کے دو مینیجرز جسیم اور اسلام کے ساتھ زکوٰة کی تقسیم کے لیے فیکٹری کے اندر موجود تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تقسیم سے قبل فیکڑی کے باہر بڑی تعداد میں بچے اور خواتین جمع تھے۔
فیکٹری کے چوکیدار حسین زادہ نے بڑے گیٹ کے ساتھ موجود چھوٹا گیٹ کھولا تو خواتین اور بچے فیکٹری میں داخل ہو گئے، اسی دوران دھکم پیل اور بھگدڑ مچ گئی جس کے باعث خواتین اور بچے جان سے گئے اور کچھ خواتین اور بچے زخمی ہوئے۔
راشن اور زکوٰۃ کی تقسیم کے دوران بھگڈڑ مچنے سے اموات کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔
گذشتہ ہفتے خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ میں مفت سرکاری آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے ایک شخص جان سے گیا اور کئی افراد زخمی ہوئے تھے۔
ستمبر 2009 میں کراچی کے علاقے کھوڑی گارڈن میں آٹے کی مفت تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 14 عورتوں اور تین کمسن بچیوں سمیت 20 اموات ہوئیں تھیں۔
جنوری 2012 کو لاہور کے الحمرا کلچرل کمپلیس میں ایم مقامی نجی کالج کی جانب سے منعقدہ میوزیکل شو میں موجود چھ سے سات ہزار لوگوں کی موجودگی کے دروان بھگدڑ مچنے سے 17 سے 22 سال عمر کی تین لڑکیوں کی موت واقع ہوئی اور تین شدید زخمی ہوئی تھیں۔