سپریم کورٹ رجسٹرار کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حوالے

وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ رجسٹرار کی خدمات واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کر دی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تین اپریل کو الیکشن التوا کیس کی سماعت کی (تصویر انڈپینڈنٹ اردو)

وفاقی کابینہ نے پیر کی رات ایک خصوصی اجلاس میں سپریم کورٹ رجسٹرار عشرت علی کی خدمات واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کر دی۔

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج سیکریٹری کابینہ سیکریٹریٹ، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو خط میں لکھا تھا کہ سپریم کورٹ رجسٹرار کو فوری طور پر واپس بلائیں۔

وزارت اطلاعات کے ایک اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں دو نکاتی ایجنڈے پر تفصیلی غور کیا گیا۔

اجلاس میں وزیر قانون سینیٹر اعظم نزیر تارڑ اور اٹارنی جنرل نے مختلف امور پر بریفنگ دی۔ 

وفاقی کابینہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ صدر ڈاکٹر عارف علوی سے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر فی الفور دستخط کریں تاکہ ملک کو آئینی وسیاسی بحران سے نجات مل سکے۔

جسٹس عیسیٰ کے سیکریٹری کابینہ سیکریٹریٹ اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو خط کے مطابق ’رجسٹرار کو سپریم کورٹ کی ساکھ اور وقار مزید تباہ نہ کرنے دیا جائے اور بہتر سمجھیں تو رجسٹرار کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی جائے اور رجسٹرار فوری طور پر عہدے سے دست بردار ہوں۔

خط میں مزید لکھا گیا: ’آئین کے تحت بیوروکریسی کو عدلیہ سے الگ رہنا چاہیے، دیگر شہریوں کی طرح رجسٹرار بھی آئین کے آرٹیکل پانچ کی شق دو کے پابند ہیں۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے خط کی کاپی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بھی بھجوائی۔ 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خط سے پہلے آج ایک سرکلر جاری کرنے پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا کہ ان کے پاس جوڈیشل آرڈر کالعدم قرار دینے کا کوئی اختیار نہیں بلکہ چیف جسٹس بھی جوڈیشل آرڈر کے خلاف کوئی انتظامی آرڈر جاری نہیں کر سکتے۔

رجسٹرار کے نام خط میں مزید لکھا گیا کہ ’رجسٹرار کا 31  مارچ کا سرکلر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ آپ کو سینیئرافسر کے طور پر اپنی آئینی ذمہ داری کا ادراک ہونا چاہیے۔

’یہ کیس سوموٹو نمبر 4/2022 آرٹیکل 184 تھری کے تحت ازخود نوٹس کے تحت سنا گیا۔ سپریم کورٹ اور آپ کے مفاد میں بہتر یہی ہے 31 مارچ کا سرکلر فوری واپس لیا جائے، سرکلر واپس لے کر تمام ان لوگوں کو مطلع کیا جائے جن کو بھیجا گیا تھا۔‘

رجسٹرار کا سرکلر:

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 184/3 کے تحت 29 مارچ کو ایک کیس میں فیصلہ دیا تھا کہ عدالتی اصلاحات ہونے تک 184/3 کے تمام مقدمات کو موخر کیا جائے۔

رجسٹرار سپریم کورٹ نے 31 مارچ کو اس فیصلے کے خلاف سرکلر جاری کیا جس کے مطابق جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے فیصلے میں ازخود نوٹس کا اختیاراستعمال کیا گیا، اس اندازمیں بینچ کا سوموٹو لینا پانچ رکنی عدالتی حکم کی خلاف ہے۔

’سوموٹو صرف چیف جسٹس ہی لے سکتے ہیں، فیصلے میں دی گئی آبزرویشن کومسترد کیا جاتا ہے۔‘


جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف الزامات کا جائزہ لینے کے لیے جوڈیشل کونسل کو خط

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے ساتھی جج جسٹس مظاہر علی نقوی پر لگے الزامات کا جائزہ لینے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ دیا۔

خط میں لکھا گیا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلا کر جائزہ لیا جائے کہ اگر جسٹس مظاہر علی نقوی پر لگے بد انتظامی اور مالی بے ظابطگیوں کے الزام غلط ہیں تو ان کی عزت بحال کی جائے لیکن اگر یہ الزامات درست ہیں تو ان کے خلاف آئین کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف پاکستان بار نے شکایت بھجوائی تھی۔

یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان، جسٹس احمد علی شیخ، جسٹس امیر محمد بھٹی کو لکھا گیا ہے۔


پنجاب، خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق کیس کا محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے جو اب کل یعنی منگل کو سنایا جائے گا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو الیکشن التوا کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پارلیمان اور حکومت کا بہت احترام ہے، انتخابات ایک ساتھ ہونے کا آئیڈیا زبردست ہے، اس کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی چاہیے ہو گی، ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہو رہا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’الزامات لگائے جا رہے ہیں کیونکہ ہر کوئی صرف سیاسی مفادات کو پورا کرنا چاہتا ہے، ایسا نہ ہو کہ دوسرا کوئی غیرضروری معاملہ شروع ہو جائے۔‘

’یہ اپنے ججز بھی خود چننا چاہتے ہیں؟ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اپنے مقدمات سننے کے لیے ججز خود منتخب کیے گئے ہوں۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ہے، وفاقی حکومت اگر انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرائے تو کچھ سوچا جاسکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی وجوہات بھی دیکھیں گے، عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا، آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کی آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا۔‘


’فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے‘

سماعت کے دوران سکیورٹی معاملات پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ سٹیشنز محفوظ ہیں، فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کے لیے نہیں ہوتا۔‘

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’صورت حال سب کے لیے ہی مشکل ہے۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اصل مسئلہ سکیورٹی ایشو ہے، دونوں افسران کو سن کر بھیج دیتے ہیں، آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔‘ اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ ’حساس معاملہ ہے، سکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو، کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، کوئی آ کر کہے تو صحیح کہ کتنے سکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’تمام چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کچھ وجوہات بتائی ہیں۔‘

سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمود الزمان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ حساس معلومات نہیں لیں گے مجموعی صورت حال بتا دیں اور فی الحال پنجاب کا بتائیں کیونکہ خیبرپختونخوا میں ابھی تاریخ ہی نہیں۔ کیا پنجاب میں سکیورٹی حالات سنگین ہیں؟‘

سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ ’پنجاب میں سکیورٹی حالات سنگین ہیں۔ کھلی عدالت میں تفصیلات نہیں بتا سکتا۔ نہیں چاہتے معلومات دشمن تک پہنچیں۔‘

عدالت نے علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے پوچھا کہ ان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا موقف ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار دے دیں تو انتحابات کروا سکتے ہیں۔ سکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے دستیاب ہو سکتے ہیں۔ سکیورٹی کا ایشو رہے گا آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔ ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ ’سوال یہ ہے کہ آٹھ اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو combat والے اہلکار درکار ہیں؟‘

سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ ’ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔ ریزور فورس کو بلانے کا طریقہ کار موجود ہے۔ ریزرو فورس کی طلبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔‘

چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ ’سر بمپر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں۔ جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گے۔ کوئی سوال ہوا تو اس کا جواب آپ سے لیں گے۔ آپ چاہیں تو جواب تحریری بھی دے سکتے ہیں۔‘

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حساس معاملات کو سمجھتے ہیں پبلک نہیں ہونے چاہییں۔

نیشنل سکیورٹی اہلکاروں، عوام کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے، الیکشن ڈیوٹی کے لیے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، الیکشن کل نہیں ہونے، ابھی پورا شیڈول آئے گا۔‘

اس پر علی ظفر نے کہا کہ 'پیرا ملٹری فورسز، بحری اور فضائی فورسز سے بھی معلومات لیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’جن علاقوں میں سکیورٹی صورت حال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں، الیکشن کمیشن نے 45 فیصد پولنگ سٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے، جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں، جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصور ہوتا ہے۔‘


’اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں‘

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کی جانب سے ججوں پر عدم اعتماد کے حوالے سے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں اور اگر بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر اس معاملے پر سماعت کر رہا ہے۔

سماعت کے آغاز میں پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک روسٹروم پر آ گئے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟‘ فاروق ایچ نائیک نے جواباً کہا کہ ’جی کارروائی کا حصہ ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا۔‘ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا۔‘

اس موقعے پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔‘

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں جبکہ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں اور بینچ کے دائرہ اختیار پر بھی تحفظات ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’گذشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیے کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر عدم اعتماد والا اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔‘

مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وکالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں۔ وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’آپ کو کیا ہدایات ملی ہیں۔‘ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔‘ جس پر چیف جسٹس  نے ریمارکس دیے کہ ’سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔‘

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے۔‘

صدر کو خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے اور درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے، جس میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور خیبرپختونخوا کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا لیکن گورنر خیبرپختونخوا نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن آٹھ اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔ 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر ر ہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔‘

اس موقعے پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے۔ عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعا ختم ہو جائے گی۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پہلے راؤنڈ میں نو رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا اور 21  فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا۔ دو ججوں کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں، جنہوں نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس اطہر من اللہ سے اتفاق کیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایک جج نے درخواست خارج کی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے شاید نوٹ میں درخواست خارج کرنے کا نہیں لکھا، آپ کا نقطہ نظر سمجھ گئے ہیں۔‘

اس موقعے پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ کتنے رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا؟ 27 فروری کو نو رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔‘

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ  ’4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس نو رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا نو رکنی بینچ کا ہوگا یا پانچ رکنی بینچ کا۔‘

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اختلافی نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا، نوٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی تھی۔‘

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’نو رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ کون رضاکارانہ الگ ہو رہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جاسکتا، عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’ازسرنو تشکیل میں تمام پانچ نئے ججز آجاتے تو کیا ہوتا؟ کیا نیا بینچ پرانے دو ججز کے فیصلوں کو ساتھ ملا سکتا ہے؟ نیا بینچ تشکیل دینا جوڈیشل حکم تھا انتظامی نہیں۔‘

اس دوران عرفان قادر نے اٹارنی جنرل کے کان میں کچھ کہا تو منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟‘ جس پر عرفان قادر نے جواباً کہا کہ ’15 سیکنڈز کا معاملہ ہے۔‘

دوران سماعت ججوں اور بینچ پر تنقید کے معاملے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کے لیے بہت اہم ہے۔ ’ججوں کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں، عدالتی کاروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت پبلک نہیں ہوتی۔‘


چیف جسٹس کے بغیر کوئی جج از خود نوٹس نہیں لے سکتا: چیف جسٹس

سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر سپریم کورٹ اعلامیے کے حوالے سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’اعلامیے میں از خود نوٹس کے انتظامی احکامات کو موخر کیا گیا، کسی عدالتی فیصلے کو مسترد نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس کے بغیر کوئی جج از خود نوٹس نہیں لے سکتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں خواہش ظاہر کی مگر کوئی ایسا حکم چیف جسٹس کو نہیں دیا جاسکتا۔‘

انہوں نے مزید ریمارکس دیے: ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے میں اس کیس کو روکنے کا کہا گیا ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والا حکم واضح نہیں ہے، ازخود نوٹس کے تمام مقدمات کو کیسے روک دیا جائے، کیا آپ ہمارے اعلامیے کو چیلنج کر رہے ہیں؟‘

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے 31 مارچ کو ایک اعلامیہ جاری کیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کر دیا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ کیسے اعلامیے سے ختم ہو سکتا ہے۔‘

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا کہ وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی۔ پانچ رکنی بینچ نے دو دن کیس سنا، کسی نے کہا دو ارکان موجود نہیں، کیا کسی پانچ رکنی بنچ کی سماعت کے دوران یہ کہا کہ بینچ سات رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بینچ کرے گا؟‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے بھی سماعت میں دونوں ججوں کے رکن ہونے کا نکتہ نہیں اٹھایا، فٹ نوٹ میں بھی لکھا کہ دو ججوں کی آرا ریکارڈ کا حصہ ہے، فیصلہ کا نہیں۔ ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکم نامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نکتے پر قائل نہیں کرسکے۔‘

اس موقعے پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ ’دو ججوں نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا، چار آرا کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے کسی بھی بنچ کا حکم سب پر لاگو ہوتا ہے۔‘

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ بینچ کے تناسب والے معاملے پر آپ کا نکتہ سمجھ گئے ہیں، امید ہے آپ بھی ہمارا نکتہ سمجھ گئے ہوں گے، آپ جو کہہ رہے ہیں وہ مفروضوں پر مبنی ہے، بہت اہم معاملات پر از خود نوٹس لیا جاتا ہے۔ دو سابق سپیکرز صوبائی اسمبلی نے درخواستیں دائر کی تھیں، دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں۔‘


کیس موخر کرنے اور فل کورٹ بنانے پر بحث

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے عدالت سے استدعا کی کہ رولز بننے تک اس کیس کی سماعت موخر کر دی جائے، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’آپ ایک طرف فل کورٹ کی بات کرتے ہیں دوسری طرف کیس موخر کرنے کا کہہ رہے۔‘

 اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میری دانست اور میڈیا رپورٹس کے مطابق فل کورٹ کی استدعا مسترد ہوچکی، پہلی سماعت اور پھر جمعے کو بھی فل کورٹ کی استدعا کی مگر مانی نہیں گئی، لیکن فل کورٹ مسترد کرنے کا معاملہ حکم نامے میں بھی نہیں۔‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم نے کہا تھا کہ فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی تھی۔‘

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’طے تو کر لیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں، آپ کا موقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔‘ جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں، ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟ 184/3 کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقہ کار بنایا ہوا ہے۔‘

اس موقعے پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، کیسے ہوسکتا ہے کہ فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟ جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے، سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہو گا، سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا، یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’تمام 15 ججز مختلف آرا اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔‘

چیف جسٹس نے عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ’کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا، نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا۔ نو ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے نو ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی۔‘

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ’فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن کل بینچ نہیں، گذشتہ تین دن میں سینیئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں، لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔‘

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’جو ججز نو رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے۔ 3/2 یا 4/3  کا فیصلہ باقی دو ججز کو کرنے دیا جائے۔‘


حکومت کی پی ٹی آئی درخواست مسترد کرنے کی استدعا

دوسری جانب سماعت سے قبل وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست مسترد کیے جانے کی استدعا کردی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کے مطابق اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ’یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا۔ تین رکنی بینچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی درخواست موخر کی جائے۔‘

درخواست میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے  جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں انہیں نکال کر باقی ججز پر مشتمل بینچ بنایا جائے۔‘

مزید کہا گیا کہ پہلے راؤنڈ میں الیکشن کا فیصلہ چار تین اکثریت سے دیا گیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں ہی الیکشن سے متعلق کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں۔ چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر  فیصلہ دینے والے  بینچ کا حصہ تھے، لہذا چیف جسٹس  اور جسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔


وکلا احتجاج کے پیش نظر سکیورٹی سخت

چیف جسٹس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پنجاب بھر کے مختلف علاقوں سے وکلا کی سپریم کورٹ کے باہر جمع ہونے کی اطلاع پر اسلام آباد پولیس نے سپریم کورٹ کی سکیورٹی بڑھا دی۔

ممکنہ سیاسی کشیدگی کے پیش نظر اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں وہی افراد داخل ہوسکیں گے جن کے مقدمات زیرسماعت ہوں گے یا جنہیں سپریم کورٹ انتظامیہ کی طرف سے اجازت نامہ جاری ہوگا۔

پولیس نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ ریڈ زون میں تعینات پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔

عدالت عظمیٰ نے آج سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا ہے، جہاں عدالت ان سے انتخابات کے انعقاد میں حائل رکاوٹوں جیسے کہ وسائل کی کمی کے بارے میں پوچھے گی۔

دوسری جانب پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آج (پیر کو) کانسٹی ٹیوشن ایونیو اسلام آباد میں وکلا کے آنے کی کسی بھی کال کو مسترد کر دیا ہے۔

پی بی سی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’ایسا اقدام چیف جسٹس بندیال کو متنازع بنا دے گا۔‘


سپریم کورٹ پر دباؤ

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر حکومت کی جانب سے فل بینچ میں اس مقدمے کی سماعت کے لیے شدید دباؤ ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے آئین پر حملے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ’ججز کو دباو میں لانے کے لیے ان کے خلاف ریفرنس کی باتیں کی جا رہی ہیں۔‘

سپریم کورٹ میں آج کی سماعت کے پیش نظر حکومت بھی اپنی حکمت عملی تیار کر رہی ہے۔ لیکن حکومتی اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم ) نے اسے ’دو جماعتوں کا مسئلہ‘ قرار دیتے ہوئے اس معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

ترجمان ایم کیو ایم نے کہا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پی ڈی ایم میں شامل دو جماعتوں کا مسئلہ ہے، ہم اس کی حمایت نہیں کرتے اور نہ ہی مخالفت کرتے ہیں، پی ڈی ایم نے اس سلسلے میں ایم کیو ایم - پاکستان سے رابطہ نہیں کیا۔‘


سول سوسائٹی کی مذاکرات کی دعوت

ادھر سول سوسائٹی کے ایک گروپ نے بڑی سیاسی جماعتوں کو حالیہ سیاسی و قانونی کشیدگی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی دعوت دی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی)، پاکستان بار کونسل (پی بی سی) اور پاکستان فیڈریشن آف یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) سمیت درجن بھر سے زائد سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اس کثیرالجماعتی کانفرنس کے لیے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو دعوت بھیجی ہے۔

ڈان اخبار کے مطابق عمران خان نے رضامندی ظاہر کی ہے کہ ان کی جماعت اس مجوزہ کانفرنس میں شرکت کرے گی تاہم اس کے مقام کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔


پی ٹی آئی نے درخواست کب دائر کی؟

22 مارچ کو قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’30 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں، اس لیے چاہتے ہیں کہ اکتوبر میں پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہوں،‘ جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل کو مقرر پنجاب کے صوبائی انتخابات ملتوی کرتے ہوئے آٹھ اکتوبر کی نئی تاریخ دی تھی۔

تاہم پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن اور حکومتی فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں مشترکہ آئینی درخواست دائر کی تھی۔ 

25 مارچ کو دائر کی گئی اس آئینی درخواست میں وفاق، پنجاب، خیبرپختونخوا، وزارت پارلیمانی امور، وزارت قانون اور کابینہ کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔

پی ٹی آئی نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے آئینی مینڈیٹ اور عدالت کے فیصلے سے انحراف کیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو شیڈول کے مطابق 30 اپریل کو صوبے میں انتخابات کروانے کا حکم دیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان