وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے آج بلایا جانے والا قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ملک کی سیاسی اور سکیورٹی صورت حال پر غور کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اجلاس حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی مسائل کے حل کے لیے مل بیٹھنے پر زور دیا جائے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیر اعظم ہاؤس، اسلام آباد میں ہو گا جس میں آرمی چیف سمیت عسکری قیادت شریک ہوگی۔ وفاقی وزرا بھی اجلاس میں شریک ہوں گے۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے بعد ملک میں پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال اور معاشی مسائل پر بریفنگ دی جائے گی اور کسی متفقہ لائحہ عمل پر پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار نسیم زہرہ کا ایک وی لاگ میں کہنا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ اجلاس سے پاکستان تحریک انصاف کو مل بیٹھ کر انتخابات کے انقعاد کے بارے میں اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے پیشکش کی جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ 72 گھنٹوں میں پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت نے حکومت کو غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ ’فواد چوہدری نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں آرمی کمان کو بھی مذاکرات کا حصہ بننے کا کہا تھا۔ پی ٹی آئی کو کیا اس بات کا احساس ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کے انتخابات کے فیصلے کے بعد بھی ڈیڈ لاک برقرار رہے گا اور اسی وجہ سے غیر مشروط مذاکرات کی پیش کش کی گئی ہے؟‘
نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی احساس ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کو انتظامی اقدامات اور پوائنٹ سکورنگ کے ذریعے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لہذا مکالمہ ایک ضرورت ہے۔ ’اس پس منظر میں آج کے این ایس سی اجلاس سے مکالمے کی پیش کش کا قوی امکان ہے۔‘
تاہم دوسری جانب تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا آج ہونے والے اس اجلاس کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انتخابات کو التوا میں ڈالنےکی کوشش کرنے اور سکیورٹی کو اس کے ایک جواز کے طور پر استعمال کرنے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ ان کا یہ اقدام مسلح افواج کو عدلیہ ہی نہیں بلکہ براہِ راست قوم کے سامنے لاکھڑا کرے گا۔‘
اب پوری طرح سے واضح ہوچکا ہے کہ PDM ہر حال میں انتخابات سےفرار ہی چاہتی ہے۔ یہ سپریم کورٹ کے حوالے سےایک غیرآئینی قانون لیکر آئےاور انہوں نےعدلیہ کیخلاف قومی اسمبلی سےایک قرارداد منظور کی۔ اب انتخابات کو التواء میں ڈالنےکی کوشش کرنے اور سیکیورٹی کو اس کے ایک جواز کے طور پر…
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) April 6, 2023
عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ پی ڈی ایم ہر حال میں انتخابات سے فرار ہی چاہتی ہے۔
عمران خان نے لکھا کہ یہ سپریم کورٹ کے حوالے سے ایک غیرآئینی قانون لے کر آئے اور انہوں نے عدلیہ کے خلاف قومی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کی۔
حکومت نے جمعرات کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کروا لی تھی۔
تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سلامتی کمیٹی کا اجلاس نہایت ہی اہم ہے اور آئندہ چار سے پانچ روز بہت اہم ہیں۔ ’10 اپریل کو حکومت نے الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرنے ہیں۔ حکومت ایسا نہیں کرتی تو یہ فیصلہ توہین عدالت شمار ہوگا۔‘
ایک نجی ٹی وی میں گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر تنقید کرنا آئینی حق ہے البتہ فیصلے کو تسلیم نہ کرنا اور اس کے خلاف قرارداد لانا غیرآئینی ہے۔ ’ہم نےالیکشن ہی نہیں کرانے ملک کو بحران سے بھی نکالنا ہے۔‘
پتن سروے
ادھر انتخابات کی نگرانی کرنے والی تنظیم پتن نے ایک تازہ سروے جاری کیا ہے جس کے مطابق پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات آٹھ اکتوبر تک ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے سے 80 فیصد جواب دہندگان کا اختلاف ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم، سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بہت بڑا اختلاف نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے 95 فیصد حامیوں نے الیکشن کمیشن کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا جبکہ پی ڈی ایم کے صرف 23 فیصد حامیوں نے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔
سروے کے جواب دہندگان سے کہا گیا کہ وہ اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں کہ ان کے خیال میں جاری بحرانوں کا بنیادی طور پر ذمہ دار کون ہے۔
تقریبا 80 فیصد جواب دہندگان کا خیال تھا کہ پی ڈی ایم (45 فیصد)، اسٹیبلشمنٹ (21 فیصد) اور دونوں (4 فیصد) بنیادی طور پر موجودہ بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
رائے عامہ کے جائزے کے نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ '80 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ گندم کے آٹے کی مفت تقسیم سے آئندہ عام انتخابات میں موجودہ حکومت کو کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پی ڈی ایم کو ووٹ دینے کا اعلان کرنے والے 52 فیصد جواب دہندگان کا یہ بھی ماننا تھا کہ گندم کے آٹے کی مفت تقسیم سے پی ڈی ایم جماعتوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ پی ٹی آئی کے حامی 88 فیصد جواب دہندگان کا یہی خیال تھا۔
جواب دہندگان سے یہ بھی درخواست کی گئی تھی کہ وہ ان مسائل کو درج کریں جن کا انہیں اس وقت سامنا ہے۔ ان میں سے ایک چوتھائی نے ناقص گورننس اور بدعنوان اشرافیہ کا ذکر کیا جبکہ 45 فیصد نے بے روزگاری، افراط زر اور عدم تحفظ کا ذکر کیا۔
پتن کا کہنا ہے کہ چونکہ ملک کو بیک وقت سیاسی اور معاشی بحرانوں کا سامنا رہا ہے لہذا سیاست اور معاشیات یا بحران کی سیاسی معیشت کے مابین تعلقات پر عوامی تاثر حاصل کرنا ضروری سمجھا گیا۔