عید کی چھٹیوں پر سیر ضروری مگر سستے علاقوں کا انتخاب کریں

کراچی اور سندھ کے اندرون سے آنے والے سیاح 10 گنا مہنگی سیر کرتے ہیں جس کا سبب ان کا ناجائز منافع خوروں کے ہتھے چڑھ جانا ہوتا ہے۔

ایسے علاقوں کا رخ کریں جن پر سیاحوں کی توجہ کم ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

میدانی علاقوں میں اپریل کا دوسرا ہفتہ گرمی کی شدت اور دھوپ کی حدت لیے ہوئے داخل ہو چکا ہے۔ ماہ رمضان کے نصف روزے تو بارشوں نے ٹھنڈے کیے رکھے مگر اب موسم برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔

عید کی تعطیلات پر گھروں سے نکلنے والے میدانی علاقوں کے لوگ پہاڑی وادیوں میں گرمی سے پناہ ڈھونڈنے ضرور جائیں گے۔

اگر کچھ منصوبہ بندی پر عمل کیا جائے تو مہنگائی کے باوجود تفریح راحت کا سبب بن سکتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کراچی اور سندھ کے اندرون سے آنے والے سیاح 10 گنا مہنگی سیر کرتے ہیں جس کا سبب ان کا ناجائز منافع خوروں کے ہتھے چڑھ جانا ہوتا ہے۔

جب وہ لوگ ٹرین کے ذریعے راولپنڈی سٹیشن پر پہنچتے ہیں یا وہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترتے ہیں تو وہ ٹیکسی ایسوسی ایشن کے کارندوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ رینٹ اے کار والے ہفتہ بھر کا پیکج دیتے ہوئے پہاڑوں کا صحیح نرخ موصول کرتے ہیں۔

مری، نتھیا گلی، ایوبیہ، ناران، شوگران اور گلگت بلتستان تک کے ہوٹل ریلوے سٹیشن پر ہی طے کر لیے جاتے ہیں۔ اگر سیاح گھوم پھر کر خود معاملات طے کریں تو آدھی سے زیادہ بچت ممکن ہے۔ ٹیکسی والے کا کردار صرف سفر تک ہی محدود ہو تو کسی بھی ہل سٹیشن پر سستے کمرے اور مناسب کھانا مل سکتا ہے۔

بہترین تفریح اور حیران کن برفیلی بلندیوں کے نظاروں کے لیے درست علاقے کا انتخاب بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جس بجٹ میں سیاح مری اور ناران میں صرف دو دن گزارتے ہیں اور بدلے میں آلودگی وصول کرتے ہیں، اسی قیمت پر وہ ہفتہ 10 دن گزار سکتے ہیں مگر انہیں کچھ فیصلے ہجوم سے ہٹ کر کرنا ہوں گے۔

اگر تعطیلات کو آلودگی کی نذر کرنا ہو تو بہترین جگہ مری ہے جہاں موسم بھی کمال ہوتا ہے اور شہر کی تمام سہولیات بھی میسر ہیں۔ ناران اور کالام کی وادیاں بھی مری کا عکس ہیں جہاں مہنگائی اور شور شرابہ یکساں آپ کے ہمراہ چلتا ہے۔

ناران کا رخ کرنے والے لوگ اگر ناران کے بازار سے دو کلومیٹر آگے قیام کریں تو دریائے کنہار کنارے بنے سستے ہوٹل ان کی سیر کو یادگار بنا سکتے ہیں جہاں حیران کن حد تک سستے کمرے دستیاب ہوتے ہیں۔ ناران سے 10 کلومیٹر بابو سر کی طرف بٹّہ کنڈی منی ہل سٹیشن بن چکا ہے جہاں فطرت سرگوشیاں کرتی ہے۔ لالہ زار کی بلندی بھی سیاحوں کی جیب کترنے سے گریز کرتی ہے۔

وادی سوات جانے والے کالام کی بجائے مالم جبہ میں  قیام کریں تو انہیں تفریح مہنگی نہ پڑے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بابو سر ٹاپ کی اترائی آپ کو مزید سستے اور پرامن علاقے میں خوش آمدید کہے گی۔ زیرو پوائنٹ چوک پر دریائے سندھ جب اپنی طغیانی کی سلامی پیش کرتا ہے تو قراقرم ہائی وے بھی بھلی لگتی ہے۔ رائے کوٹ پل پر اپنی گاڑی چھوڑ دیں اور جیپ کے ذریعے ذرا اوپر پریوں کی چراگاہوں تک چلیے جسے فیری میڈوز کہتے ہیں۔

یہاں نانگا پربت کا برفانی وجود عریاں ہو کر سامنے کھڑا ہوتا ہے اور مئی جون میں بھی آپ آگ کے الاؤ کا تقاضا کرتے ہیں۔ بہت کم بجٹ میں ایک یادگار سفر آپ کے گوشوارے میں لکھا جاتا ہے۔ فیری میڈوز سے تین گھنٹے کی پیدل مسافت بیال کیمپ تک لے جاتی ہے، بیال کیمپ نانگا پربت کا بیس کیمپ ہے۔

پاکستان کا خوبصورت ترین گاؤں ترشنگ بھی مہنگا نہیں پڑتا۔ یہ گاؤں بھی قاتل پہاڑ کا دوسرا بیس کیمپ ہے جسے روپل چہرہ کہتے ہیں۔

 راما کی وادی ضلع استور کا خوبصورت مقام ہے جہاں کم قیمت پر کھانا اور رہائش دستیاب ہوتی ہے۔ گلگت کی وادی غذر، پھنڈر اور یاسین میں ہوٹل سستے اور سیب مفت میں دستیاب ہوتے ہیں۔ دریائے غذر جیسی خوبصورتی پورے شمال میں کہیں نہیں۔ سکردو میں دیوسائی میدان سطح مرتفع پر واقع ہے جہاں جون میں بھی برف باری ہوتی ہے، وہاں ایک ہزار روپے میں خیمہ مل سکتا ہے۔

اگر آپ ہنزہ جائیں اور عطا آباد جھیل آپ کو اپنی طرف بلائے تو یاد رکھنا کبھی بھی ہنزہ میں رہائش نہ رکھنا وہ بہت مہنگی ہو گی۔ چند فرلانگ دور نگر اور منا پن میں اپنائیت ملے گی، لوگ بھی محبت کرنے والے اور مہمان نواز ہیں۔

امید ہے ہمارے دیے گئے مشوروں کو سیاح گرہ سے باندھ لیں گے اور یوں اپنی جیب ہلکی کرنے سے بچ جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ