پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل 2023‘ کے خلاف درخواستوں پر آٹھ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے جس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ایکٹ بادی الںظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تاحکم ثانی کسی بھی طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو گا۔‘
تحریری فیصلے کے مطابق ’صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تاحکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔ اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے۔ لہذا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر پیشگی حکم امتناعی جاری کر رہے ہیں۔‘
عدالت کے تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کے لیے متفکر ہے۔ اس ضمن میں مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے عدالت کی مداخلت درکار ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے اہم قانونی نکات اٹھائے، عدلیہ کی آزادی سے متعلق بھی نکتہ اٹھایا گیا۔‘
’سپریم کورٹ بل کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے گی۔‘
تحریک انصاف اور ق لیگ سمیت حکومتی اتحادی جماعتوں، اٹارنی جنرل، پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔ سماعت اب عید کے بعد دو مئی کو ہو گی۔
حکمران جماعتوں کا مشترکہ بیان
تاہم پاکستان کی حکمران جماعتوں کی جانب سے 13 اپریل 2023 کو جاری شدہ مشترکہ بیان کے مطابق ’حکمران جماعتوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل 2023 پر تاحکم ثانی عمل روکنے کا حکم مسترد کر دیا ہے۔‘
جمعرات کی رات حکمران جماعتوں نے مشترکہ بیان میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ’تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ قانون ابھی بنا بھی نہیں، نافذ بھی نہیں ہوا لیکن ایک متنازع اور یک طرفہ بینچ بنا کر اس کو جنم لینے سے ہی روک دیا گیا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’محض ایک اندازے اور تصور کی بنیاد پر یہ کام کیا گیا جو نہ صرف مروجہ قانونی طریقہ کار ہی نہیں منطق کے بھی خلاف ہے۔ یہ مفادات کے ٹکراؤ کی کھلی اور سنگین ترین مثال ہے۔ یہ عدل و انصاف اور سپریم کورٹ کی ساکھ کا قتل ہے۔‘
’یہ اقدام خلاف آئین اور پارلیمنٹ کا اختیار سلب کرنا ہے۔ یہ وفاق پاکستان پر حملہ اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں پر بھی عدم اعتماد ہے جن کو ازخود کارروائی کے عدالتی اختیار اور منصفانہ و شفاف طریقے سے بینچوں کی تشکیل کی خاطر تین رکنی کمیٹی میں شامل کیا گیا تھا جو نہایت افسوس ناک ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ حکمران جماعتیں اس عدالتی ناانصافی کو نامنظور کرتے ہوئے اس کی بھرپور مزاحمت کریں گی۔
اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں پارلیمان کی جانب سے چیف جسٹس کے اختیارت سے متعلق نئی قانون سازی (پریکٹس اینڈ پروسیجر بل) کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ’ہم پارلیمان کی عزت کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس قانون کو بناتے ہوئے آئین کی خلاف ورزی تو نہیں کی گئی۔‘
چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ ’ہم آج کی سماعت کا حکم نامہ بعد میں جاری کریں گے، آئندہ سماعت کب ہوگی، ججز کے ساتھ مشاورت کریں گے۔‘
عدالت نے جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران تمام فریقوں کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ کا حصہ ہیں۔
سپریم کورٹ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے
درخواست گزار راجہ عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’بل کے تحت از خود نوٹس اور بینچز کی تشکیل کا فیصلہ تین رکنی کمیٹی کرے گی، بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ بل قانون بننے کے لائق ہے؟
’کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیرقانونی ہے، بل کابینہ میں پیش کرنا اور منظوری دونوں انتظامی امور ہیں، بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا بھی غیر آئینی ہے۔ بل زیر التوا نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے، صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا، سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔‘
انہوں نے دلائل دیے کہ ’چیف جسٹس اور ججز کے اختیارات کم نہیں کیے جاسکتے۔ چیف جسٹس کا آفس کوئی اور جج استعمال نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس کا دفتر دو سینیئر ججز کے ساتھ کیسے شیئر کیا جاسکتا ہے۔ عدلیہ کی آزادی پر سپریم کورٹ کئی فیصلے دے چکی ہے۔
’ریاست کے ہر ادارے کے اقدامات کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ قاسم سوری کیس میں قرار دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ بل کو پاس ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔ بل پاس ہوجائے تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی۔ عدالتی فیصلے کے مطابق صدر کی منظوری سے پہلے بھی مجوزہ ایکٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔‘
امتیاز صدیقی نے مزید کہا کہ ’مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی ہے اور دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایا گیا تھا۔
’صدر مملکت نے اعتراضات عائد کر کے بل اسمبلی کو واپس بھیجا، سیاسی اختلاف پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیا گیا، مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد 10 دن میں بل قانون بن جائے گا، آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔‘
وکیل نے مزید کہا کہ ’چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں، چیف جسٹس کی تعیناتی سے ہی سپریم کورٹ مکمل ہو کر کام شروع کرتی ہے، چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی تو عدالت مکمل نہیں ہوتی۔‘
چیف جسٹس کے اختیار سے متعلق ترامیم کے بل کی سماعت کے دوران عدالت کے باہر لگے سپیکرز میں معمول سے تیز آواز گونج رہی تھی۔ پاس گزرتے وکلا نے ریمارکس پاس کیے کہ لگتا ہے برادر ججوں تک یہ آواز پہنچانا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے باہر وکلا کی قلیل تعداد بھی موجود تھی جو مظاہرے کر رہی تھی۔ سپریم کورٹ کے باہر کی صورتحال کا احاطہ کیا نامہ نگار قرۃ العین شیرازی نے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں سماعت کے آغاز سے کچھ ہی دیر قبل وفاقی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ نیوزکانفرنس کی ہے جس میں انہوں نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ’جس بل پر ابھی صدر نے دستخط نہیں کیے اور وہ قانون سازی کے عمل سے گزر رہا ہے‘ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت ہونا تشویش کی بات ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ کو قانون کے حق سے محروم کیا جائے گا؟
درخواستوں میں کیا موقف اختیار کیا گیا؟
بدھ کے روز سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 بل کے خلاف آئینی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر ہوئیں۔ درخواست سینیئر صحافی سمیع ابراہیم اور چودھری غلام حسین کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔ درخواست میں وفاقی حکومت، صدر مملکت اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ راجہ عامر اور عبداللہ ملک ایڈووکیٹ، خواجہ طارق رحیم اور ایڈووکیٹ اظہر صدیق کی جانب سے بھی بل کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی ہیں جو لاہور رجسٹری میں دائر کی گئیں۔
درخواستوں میں موقف اپنایا گیا کہ ’پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں، آئین کے آرٹیکل 191 اور 142، 70 اور انٹری 55 فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز 1980 سے بنے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید کہا گیا کہ قومی اسمبلی، سینیٹ اور باقی سب کے اپنے رولز ہیں جو انہوں نے خود بنائے، آئین کے آرٹیکل 184/ 3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی نہیں دیا جا سکتا۔‘
درخواستوں میں مزید کہا گیا کہ ’بینچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں اور از خود نوٹس کے معاملے کے حوالے سے معیارات طے کر چکی ہے، یہ قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔
’بل بدنیتی پر مبنی ہے، یہ بل آئین کے ساتھ دھوکہ ہے، لہٰذا عدالت بل کو کالعدم قرار دے کر صدر مملکت کو بل پر دستخط سے روکے اور عدالتی کارروائی تک بل کو معطل رکھا جائے۔‘
بل کا مسودہ
مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج از خود نوٹس کا فیصلہ کریں گے، از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز دی گئی، اپیل دائر ہونے کے چودہ روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرنا ہو گی۔