چیف جسٹس کے اختیارات کا بل: سپریم کورٹ آج سماعت کرے گا

چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق مسودۂ قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں جمع کروائی گئی تھیں جن کی سماعت آٹھ رکنی بینچ آج کرے گی۔

آٹھ رکنی بینچ چیف جسٹس کی سربراہی میں منگل کو سماعت کرے گا (اے ایف پی)

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر نامی مجوزہ بل پر دائر درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر دیں ہیں اور سپریم کورٹ کی کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ جمعرات کو سماعت کرے گا۔ 

بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔ 

درخواستوں میں کیا موقف اختیار کیا گیا؟

بدھ کے روز سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 بل کے خلاف آئینی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر ہوئیں۔ درخواست سینیئر صحافی سمیع ابراہیم اور چودھری غلام حسین کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔ درخواست میں وفاقی حکومت، صدر مملکت اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ 

اس کے علاوہ راجہ عامر اور عبداللہ ملک ایڈووکیٹ، خواجہ طارق رحیم اور ایڈووکیٹ اظہر صدیق کی جانب سے بھی بل کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی ہیں جو لاہور رجسٹری میں دائر کی گئیں۔ 

درخواستوں میں موقف اپنایا گیا کہ ’پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں، آئین کے آرٹیکل 191 اور 142، 70 اور انٹری 55 فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز 1980 سے بنے ہوئے ہیں۔

مزید کہا گیا کہ قومی اسمبلی، سینیٹ اور باقی سب کے اپنے رولز ہیں جو انہوں نے خود بنائے، آئین کے آرٹیکل 184/ 3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی نہیں دیا جا سکتا۔‘

درخواستوں میں مزید کہا گیا کہ ’بینچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں اور از خود نوٹس کے معاملے کے حوالے سے معیارات طے کر چکی ہے، یہ قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ 

’بل بدنیتی پر مبنی ہے، یہ بل آئین کے ساتھ دھوکہ ہے، لہٰذا عدالت بل کو کالعدم قرار دے کر صدر مملکت کو بل پر دستخط سے روکے اور عدالتی کارروائی تک بل کو معطل رکھا جائے۔‘

قانونی ماہرین اس معاملے پر کیا کہتے ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو نے سینیئر قانون دانوں سے رابطہ کر کے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

سینیئر سپریم کورٹ وکیل توفیق آصف نے کہا کہ ’عام طور پر سپریم کورٹ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی میں مداخلت نہیں کرتی لیکن جہاں آئین سے ٹکراؤ ہو وہاں سپریم کورٹ مداخلت کر لیتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’خیبر پختونخوا کی حکومت نے حسبہ بل گورنر کو بھیجا تھا۔ ابھی بل گورنر کے پاس دستخط کے لیے گیا تھا، گورنر کے دستخط سے پہلے ہی حسبہ بل چیلنج ہو گیا تھا۔ ریفرنس اس وقت کے آرمی چیف اور صدرِ مملکت جنرل پرویز مشرف کی طرف سے عدالت کو بھیجا گیا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے اس ریفرنس کی سماعت کی تھی، اور اس ایکٹ کے خلاف آبزرویشن دی تھیں۔

’20 فروری 2007 کو سپریم کورٹ نے اس ریفرنس پر اپنی رائے دے کر حسبہ بل کی تین شقوں کو خلافِ آئین قرار دے دیا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق جج شاہ خاور نے کہا ہے کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ درخواستیں قبل ازوقت ہیں۔ یہ اداروں کا ٹکراؤ بڑھ رہا ہے۔ بینچ کی تشکیل سے واضح ہے کہ آٹھ جج ایک جانب ہیں یہ ایک کھلا پیغام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دانش مندی کا فقدان ہے۔ ابھی تو ایکٹ بنا ہی نہیں ہے تو سپریم کورٹ کو کس بات کی جلدی ہے؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’عدالتی مثال تو موجود ہے لیکن یہ اچھا فیصلہ نہیں ہے۔‘

ازخود نوٹس کے معاملے پر چیف جسٹس کے اختیارات پر اصلاحات کا بل

گذشتہ ماہ 28 مارچ کو وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں عدالتی اصلاحات کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا گیا۔ وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کو ریگولیٹ کرنے کے مسودے کی منظوری دی۔ بل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کیا لیکن صدر نے بل دستخط کیے بغیر واپس بھجوا دیا، جس کے بعد دس اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل منظور کر لیا گیا۔ اور صدر کو دستخط کے لیے  بھجوا دیا گیا۔ 

دوبارہ بل بھیجے جانے کے بعد اگر صدر ڈاکٹر عارف علوی دستخط نہیں بھی کرتے تو دس دن بعد یعنی 20 اپریل تک یہ بل خود ہی قانون بن جائے گا۔ صدر پاکستان نے آٹھ اپریل کو بل واپس بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ ’بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔‘

بل کا مسودہ

مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج از خود نوٹس کا فیصلہ کریں گے، از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز دی گئی، اپیل دائر ہونے کے چودہ روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرنا ہو گی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان