قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے ملک کی موجودہ سکیورٹی صورت حال پر بریفنگ کے لیے جمعہ 14 اپریل کو اِن کیمرا اجلاس طلب کیا ہے۔
قومی اسمبلی کا اِن کیمرہ اجلاس جمعہ کی دوپہر ڈھائی بجے طلب کیا گیا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیرستان اور فاٹا کے ممبران کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ان کی بات سنی جائے گی اور ان کے خدشات دور کیے جائیں گے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’کل قومی اسمبلی کو اِن کیمرہ بریفنگ دی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ممبر چاہیں تو اپنے سوالات بھی کر سکیں گے۔ میں آپ کے توسط سے ان کو یقین دلانا چاہوں گا کہ ایسی کوئی بات قطعاً نہیں کی جائے گی، جس سے کوئی خرابی پیدا ہو۔‘
قومی اسمبلی کے اجلاس میں خیبر پختونخوا سے اراکین نے آپریشن کی بازگشت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سابق قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کے باعث وہاں کے عوام کو گھمبیر مسائل اور شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’گذشتہ فوجی آپریشنز کے نتیجے میں قبائلی عوام بے گھر، روزگار سے محروم اور حتیٰ کہ کئی معصوم جانوں سے بھی گئے۔‘
اس موقع پر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کے فوجی آپریشنز خصوصاً قبائلی علاقوں میں، کی وجہ سے عام شہریوں کو ہونے والے نقصانات کی کوئی تردید نہیں کر سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خواجہ آصف نے کہا کہ ’ماضی کے ڈکٹیٹرز نے قبائلی عوام یا کسی پاکستانی شہری سے پوچھے بغیر ایسی پالیسیاں بنائیں، جن کے باعث ملک میں دہشت گردی کو فروغ ملا۔‘
اس سلسلے میں انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’شدت پسندوں کو شہری اور پرامن علاقوں میں بسایا گیا، جس کے نتیجے میں اب وہاں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جمعہ کو ملک کی سکیورٹی کے ذمہ دار افراد قومی اسمبلی میں موجود قوم کے نمائندوں کے شک و شبہات دور کریں گے۔
اس سے قبل گذشتہ ہفتے قومی سلامتی کمیٹی نے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں ’قوم اور حکومت کے اشتراک سے دہشت گردی کے خلاف ہمہ جہت جامع آپریشن‘ شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے 41 ویں اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان سے ہر طرح اور ہر قسم کی دہشت گردی کے ناسُور کے خاتمے کے لیے اس مجموعی، ہمہ جہت اور جامع آپریشن میں سیاسی، سفارتی سکیورٹی، معاشی اور سماجی سطح پر کوششیں بھی شامل ہوں گی۔‘