انڈیا کی ریاست اترپردیش میں گرفتار مسلمان سیاست دان عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کو میڈیا سے براہ راست گفتگو کے دوران گولی مار کر کے قتل کر دیا گیا۔
سابق رکن پارلیمان اور ان کے بھائی اغوا کے ایک کیس میں گرفتار تھے اور قتل کے وقت ان کے ساتھ پولیس کے اہلکار موجود تھے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق پریا گرج کے پولیس کمشنر رامت شرما نے بتایا: ’عتیق احمد اور اشرف احمد کو میڈیکل چیک اپ کے لیے لایا جا رہا تھا اور وہ میڈیا سے بات کر رہے تھے کہ تین لوگوں نے، جو میڈیا اہلکاروں کا روپ دھارے ہوئے تھے، انہیں گولی مار دی۔‘
انہوں نے بتایا کہ تینوں ملزمان گرفتار ہوگئے ہیں اور ان سے تفتیش جاری ہے جبکہ ایک صحافی گرنے کے باعث زخمی ہوا اور ایک کانسٹیبل کو گولی سے زخم آئے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ حملہ آور نے پستول سر کے قریب لا کر گولی ماری اور دونوں بھائیوں کے زمین پر گرنے کے بعد مزید گولیاں چلائیں۔ اس وقت پولیس اہلکار ان کے پاس دکھائی نہیں دیے۔
تاہم پولیس نے بعد میں ملزمان کو حراست میں لے لیا۔ پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ ’تینوں ملزمان کو مختلف پولیس سٹیشنز میں رکھا گیا ہے۔‘
انڈین حکام کے مطابق اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک تین رکنی کمیشن قائم کر دیا ہے جبکہ کوڈ آف کریمینل پروسیجر کے تحت دفعہ 144 اتر پردیش کے تمام اضلاع میں نافذ کر دی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈین پولیس کے مطابق تینوں ملزمان نے ایک پرانا کیمرا پکڑ رکھا تھا اور خود ساختہ میڈیا کے شناختی کارڈ پاس رکھے ہوئے تھے۔
دونوں بھائیوں کو قتل کرتے وقت حملہ آوروں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے۔
دونوں بھائیوں کو اپریل میں 2005 میں انڈین قانون ساز راجو پال کے قتل کے مرکزی گواہ امیش پال کے قتل کی تفتیش میں گرفتار کیا گیا تھا۔
عتیق احمد 2019 میں اغوا کے مقدمے میں جیل بھی جا چکے ہیں۔ اس سے قبل ان کے کم سن بیٹے کو پولیس نے گولی مار دی تھی۔
انڈیا کی کانگریس پارٹی کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی نے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے ٹوئٹر پیغام میں کہا، ’ہمارے ملک کا قانون آئین میں لکھا ہوا ہے، یہ قانون سب سے اہم ہے۔ مجرموں کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے لیکن یہ ملک کے قانون کے تحت ہونی چاہیے۔
’کسی سیاسی مقصد کے لیے قانون کی حکمرانی اور عدالتی عمل سے کھیلنا یا اس کی خلاف ورزی کرنا ہماری جمہوریت کے لیے درست نہیں۔
’جو بھی ایسا کرتا ہے، یا ایسا کرنے والوں کو تحفظ دیتا ہے، اسے بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور اس پر قانون کا سختی سے اطلاق کیا جائے۔ ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ملک میں انصاف کا نظام اور قانون کی بالادستی کا بول بالا ہو۔‘