انڈیا کی مغربی ریاست گجرات کے شہر سورت میں ایک کمپنی نے ’ہیرے کے اندر ہیرا‘ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
یہ اس طرح کے پتھروں میں اب تک کے سب سے نایاب ہیروں میں سے ایک ہے۔
انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ’وی ڈی گلوبل‘ نامی فرم نے اس نایاب ہیرے کو ’بیٹنگ ہارٹ‘ کا نام دیا ہے جس کا کہنا ہے کہ یہ ہیرا ایک ٹکڑے پر مشتمل ہے جس کے اندر ایک اور چھوٹا ہیرے کا ٹکڑا موجود ہے جو آزادانہ حرکت کر رہا تھا۔
0.329 قیراط کا یہ ہیرا گذشتہ سال اکتوبر میں ہیرا بنانے والی کمپنی کو ملا تھا جو سورت اور ممبئی میں کام کرتی ہے اور اس کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔
انڈیا کی مرکزی حکومت کی جانب سے قائم کی گئی جیم اینڈ جیولری ایکسپورٹ پروموشن کونسل (جی جے ای پی سی) نے ایک بیان میں اس نایاب ہیرے کے حوالے سے کہا کہ ’بیٹنگ ہارٹ‘ ملتے جلتے قدرتی ہیروں کے ایک چھوٹے سے گروپ سے تعلق رکھتا ہے جیسے اس سے قبل سائبیریا سے ملنے والا ’میٹریوشکا‘ ہیرا تھا جو پہلی بار 2019 میں منظر عام پر آیا تھا۔
انڈین کمپنی نے برطانیہ میں قائم بین الاقوامی کارپوریشن ڈی بیئرز سے رابطہ کیا اور اس ہیرے کو مزید اور مکمل تجزیے کے لیے میڈن ہیڈ میں واقع اس سے مرکز بھیجوا ہے۔
برطانیہ میں آپٹیکل اور الیکٹران خوردبین کا استعمال کرتے ہوئے تجزیے کے ذریعے اس ہیرے کے حوالے سے دعوے کی تصدیق ہو گئی ہے۔
ڈی بیئرز کے گروپ اگنائٹ کی تکنیکی ماہر سمانتھا سیبلی نے کہا: ’میں نے یقینی طور پر ہیروں کے شعبے میں اپنے پچھلے 30 سالوں کے دوران ’بیٹنگ ہارٹ‘ جیسا کوئی ہیرا نہیں دیکھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جی جے ای پی سی کے مطابق سمانتھا سیبلی نے مزید کہا ’ڈی بیئرز گروپ کی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس قدرتی نمونے کی اندرونی تشکیل اور ساخت پر روشنی ڈال سکتے ہیں اور ان نتائج کو ہیروں کے پیشہ ور افراد کی ایک وسیع برادری کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔‘
نایاب ہیرے کے اندرونی خلا میں چھوٹے ہیرے کے دونوں اطراف خلا میں ہلکی خراشیں نظر آتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ناقص معیار کے ریشے دار ہیرے کی درمیانی تہہ بننے کے عمل میں یہ خلا وجود میں آیا ہو گا۔
ڈی بیئرز انسٹی ٹیوٹ آف ڈائمنڈز کے گلوبل آپریشنز کے سربراہ جیمی کلارک نے کہا کہ ’بیٹنگ ہارٹ‘ اس بات کی ایک قابل ذکر مثال ہے کہ قدرتی ہیرے کی تشکیل سے اس کی دریافت تک کے سفر میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔
جیمی کلارک نے مزید کہا کہ ’اس طرح کی دریافت یہ ظاہر کرتی ہے کہ قدرتی ہیرے کی تشکیل اور اس کے ماخذ کا مطالعہ کا اتنا دلچسپ موضوع کیوں ہے اور جانچ اور تجزیہ میں پیشرفت کے لیے کوشش کرنا کیوں ضروری ہے جو قدرتی ہیرے کی نشوونما کے بارے میں ہمارے علم میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔‘
© The Independent