ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں ہونے والی سماعت 27 اپریل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے سیاسی قائدین کو ظہر کے بعد پیشرفت سے آگاہ کرنے کی ہدیت کرتے ہوئے سماعت جمعرات چار بجے تک ملتوی کر دی تھی۔
تاہم وقفے کے بعد عدالتی عملے نے سماعت ملتوی کیے جانے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’عدالت نے 14 مئی کا حکم معطل کرنے کی استدعا مسترد کر دی ہے جبکہ حکومت کی طرف سے مزید وقت دینے کی استدعا منظور کر لی گئی ہے۔‘
عدالتی عملے نے کمرہ عدالت میں دوبارہ آ کر بتایا کہ چیف جسٹس کے مطابق ’مذاکرات میں پیشرفت ہو تو عدالتی حکم کے حوالے سے غور کریں گے۔‘
بعد میں سپریم کورٹ کی جانب سے جمعرات کی شب ہی پانچ صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ بھی جاری کر دیا گیا۔
تحریری حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل نے ان چیمبر ملاقات کی، ملاقات میں حکومت اور تحریک انصاف کے رہنما کے درمیان رابطے کا بتایا گیا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’عید کی چھٹیوں کے باعث رابطوں میں توقف کیا جا رہا ہے کیونکہ اکثر سیاسی رہنما عید کے باعث اپنے آبائی علاقوں میں ہیں۔‘
اس سے قبل سماعت کے دوران سیاسی قائدین کو عدالت میں دیکھ کر چیف جسٹس نے کہا کہ ’سیاسی قائدین کا تشریف لانے پر مشکور ہوں، صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے، قوم میں اضطراب ہے، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا، عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہو گی۔‘
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ ’سیاسی لیڈران آ رہے ہیں کسی کو تنگی نہ ہو مزید کرسیاں لگا دیں۔ مولا کریم لمبی حکمت دے تا کہ صحیح فیصلے کر سکیں، ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر اور ہمارے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے، عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔‘
پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں تو شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ ’عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے، ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی، قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے اب دیکھتے ہیں کی حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے۔ ہمارے جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے۔‘
درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور روسٹرم پر آ گئے۔ انہوں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے، مناسب ہو گا عدالت تمام قائدین کو سن لے، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں ہوں، وزارت دفاع نے بھی بہت اچھی بریفنگ دی۔ درخواست گزار بھی یہہ کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نظر ہوگیا، فاروق نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا، اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں، ن لیگ نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئےاور بتایا کہ ’خواجہ سعد رفیق، قمر ذمان کائرہ، طارق بشیر چیمہ آئے ہیں، ایم کیو ایم کے وکیل صابر قائم خانی، ایاز صادق اور بی این پی بھی موجود ہیں، حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ مؤقف ہے کہ 90 دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے۔ ملک بھر میں نگران حکومتوں کے ذریعے انتخابات ہونے چاہییں، سیاسی معاملات پارٹیوں کے درمیان طے ہونے چاہییں، سیاسی معاملے میں کسی ادارے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔‘
وکیل فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ ’عدالت دو مرتبہ 90 دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے، سیاسی جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ انتخابات کام شروع کر چکی ہے، بلاول بھٹو نے اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی، عید کے فوری بعد سیاسی ڈائیلاگ حکومتی اتحاد کے اندر مکمل کریں گے، پی ٹی آئی سے پھر اس کے بعد مذاکرات کریں گے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو، ہماری کوشش ہوگی کہ ان ڈائیلاگ سے سیاسی اتفاق رائے پیداہو ، الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو ایک ہی دن ہونے چاہیے۔‘
اسی اثنا میں خواجہ سعد رفیق روسٹرم پر آئے انہوں نے کہا کہ ’قیادت سے مشورے کے بعد حاضر ہوئے ہیں، ماحول مشکل ہے لیکن 22 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے، الیکشن پورے ملک میں ایک ساتھ ہونے چاہییں، انتخابات پر مذاکرات کے لیے پوری طرح تیار ہیں، پارٹی سربراہان کا اجلاس عید کے بعد طلب کر لیا ہے، ریاستی اداروں کا وقت ضائع کرنے کی بجائے سیاست دانوں کو خود بات کرنا چاہیے، عدالت میں بھی اپوزیشن کے ساتھ بغل گیر ہوئے ہیں، میڈیا پر ہونے والے جھگڑے اتنے سنگین نہیں ہوتے جتنے لگتے ہیں۔‘
ایاز صادق بی این پی کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہوئے انہوں نے عدالت میں کہا کہ ’بی این پی والے چاغی میں تھے اس لیے مجھے پیش ہونے کا کہا گیا، پی ٹی آئی سے ذاتی حیثیت میں رابطہ رہتا ہے آئندہ بھی رہے گا۔‘
طارق بشیر چیمہ روسٹرم پر آئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’مجھے چوہدری شجاعت حسین نے پیش ہونے کا حکم دیا تھا ہماری رائے میں پہلے دن سے مذاکرات کا عمل شروع ہو۔ ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہییں۔ یہ بہت سے اختلافات کو ختم کر دے گا۔ یقین دلاتا ہوں کہ ایک دن الیکشن کرانے کی سپورٹ کرتے ہیں۔ آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم کریں گے تو پھر سب کے لئے بہتر ہو گا۔‘
ایم کیو ایم کے رہنما صابر قائم خانی نے عدالت میں کہا کہ ’مسائل کا حل بات چیت سے نکالا جائے۔‘
بی این پی عوامی کے رہنما محمد اسراراللہ ترین نے کہا کہ ’ملک میں انتخابات ایک دن میں ہوں تو بہتر ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ الیکشن ایک ہی دن میں ہوں ہماری بھی یہی خواہش ہے۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے عدالت میں کہا کہ ’خواجہ سعد رفیق کی گفتگو سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، تلخی بہت زیادہ ہے، وجوہات سے پورا ملک آگاہ ہے، بطور سیاسی جماعت حکومتی اتحادی سے پہلے بات کا آغاز کیا، جب ملک میں تلخیاں بڑھیں تو بیٹھ کر سیاسی قوتوں کو حل نکالنا پڑا، پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں، کوشش ہے کہ جلد از جلد انتخابات پر اتفاقِ رائے ہو جائے، عدالت اور قوم کو یقین دہانی کراتے ہیں ملک کے لیے بہتر فیصلے کریں گے۔‘
مختلف سیاسی رہنماؤں کے موقف سننے کے بعد تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آ گئے انہوں نے کہا کہ ’پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا ہوں، ایک سیاسی پہلو ہے دوسرا قانونی، آئین 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے، کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں، سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، عدالت نے برد باری اور تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا، تلخی کی بجائے آگے بڑھانے کے لیے آئے ہیں، سیاسی قوتوں نے مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے، آئینی اور جمہوری راستہ انتخابات ہی ہیں، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہییں۔‘
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ’ن لیگی قیادت نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں، ہمیں کہا گیا قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی، اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا، حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے، ن لیگ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد فیصلے سے مکر گئی۔ ہم مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے لیکن مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہو سکتے۔ مذاکرات تو کئی ماہ اور سال چل سکتے ہیں۔ حکومت کا یہ تاخیری حربہ تو نہیں ہے۔اعتماد کا فقدان ہے۔ حکومت اپنی تجاویز دے جائزہ لیں گے۔ عمران خان کی طرف سے کہتے ہیں مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے، ہم انتشار چاہتے ہیں نہ ہی آئین کا انکار چاہتے ہیں۔‘
اسی دوران سعد رفیق دوبارہ روسٹرم پر آ گئے انہوں نے کہا کہ ’عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے، جب ہم آپس میں مل بیٹھیں گے تو سوال جواب کریں گے، عدلیہ اور ملک کے لیے جیلیں کاٹی ہیں ماریں بھی کھائی ہیں، ہم بھی آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کے قائل نہیں ہیں۔‘
قمر زمان کائرہ نے بھی کہا کہ ’یقین دہانی کراتے ہیں طول دینے کی کوشش نہیں کریں گے۔ سیاست میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔‘
شیخ رشید نے عدالت میں کہا کہ ’قوم عدالتی فیصلوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہوگا۔ یہ نہ ہو مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عید اکھٹی ہو جائے۔ سیاستدان مذاکرات کا مخالف نہیں ہوتا۔ لیکن مذاکرات با معنی ہونے چاہیں۔ ایک قابل احترام شیخصت نے آج بائیکاٹ کیا ہے۔‘
امیر جماعت سراج الحق نے عدالت میں کہا کہ ’قوم کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں، اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللہ کا حکم ہے، آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے، امریکہ ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے، اپنا گھر خود سیاستدانوں نے ٹھیک کرنا ہے۔‘
فاروق نائیک نے عدالت میں نکتہ اٹھایا کہ ’آج پارٹی ٹکٹ جمع کروانے کا آخری دن ہے، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا، پارٹی ٹکٹ کے لیے وقت میں اضافہ کریں۔‘
چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ ’13 دن کی تاخیر ہوئی تب عدالت نے حکم دیا تھا، الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کے لیے بااختیار ہے، پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر الیکشن کمیشن شیڈول تبدیل کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن رجوع کرے عدالت موقف سن لے گی۔‘
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ ’عید کی چھٹیوں میں زمان پارک میں آپریشن کا خطرہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے انہیں جواب دیا کہ ’اس کارروائی میں آپریشن کا معاملہ نہیں دیکھ سکتے، آپ نے متعلقہ عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔‘
چیف جسٹس نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو سننے کے بعد کہا کہ ’ایک تجویز ہے کہ عدالت کارروائی آج ختم کر دے تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے۔ آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے، آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی، آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اس کی تشریح نہیں کی گئی، الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، 1970 اور 71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے، سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے، ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی، حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی، بلاول بھٹو نے اچھی کوشش کی ہے، توقع ہے مولانا فضل الرحمٰن بھی لچک دکھائیں گے۔
’یاد رکھنا چاہیے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے، یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا، آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا، مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی، دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، گزارش ہو گی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں، جولائی میں بڑی عید ہو گی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں
عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے، آج دو بجے تک بتائیں کیا پیشرفت ہوئی۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی کیوں کہ کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا، عدالتی فیصلے کو اگنور نہیں کیا جاسکتا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے، عدالتی فیصلے ہٹانے کا طریقہ کار ہے، وہ 30 دن بھی گزر گئے۔‘