ارشد سے عید پر ملنا تھا تو ایچ الیون قبرستان چلی گئی۔ ان کے جانے کے بعد میں اکثر اب وہاں جاتی ہوں۔ جب اپنے پیارے قبرستان میں دفن ہو جائیں تو پھر قبرستان کی خاموشی پراسراریت پرانی قبروں سے ڈر نہیں لگتا۔
قبرستان کے ساتھ بہت سے جھوٹے قصے منسوب ہیں جیسے وہاں کوئی بھوت پریت آسیب بستے ہیں جو کمزور دل افراد پر قابو ہو جاتے ہیں۔
اسلام آباد کا یہ قبرستان کشادہ اور وسیع ہے ملک کے دیگر حصوں میں قبرستان جنگل کا سماں پیش کرتے ہیں، پر اسلام آباد میں قبرستان کی دیکھ بھال ہوتی رہی ہے۔ یہ میں ایچ الیون قبرستان کے بارے میں کہہ سکتی ہوں قدیمی قبرستان ایچ ایٹ کا کیا حال ہے اس پر میں ابھی کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔
ایچ الیون قبرستان میں سڑکیں پکی ہیں، نئی جنازہ گاہ بھی بن رہی ہے، پارکنگ بھی وسیع ہے۔ یہاں قدیمی پیڑ لگے ہوئے ہیں جو سینکڑوں پرندوں کا مسکن ہیں۔
پرندے اپنی بولیاں بول رہے ہوتے ہیں اتنی قبروں اور ان پر حاضری دینے والوں کے باوجود وہاں ایک خاموشی ہوتی ہے۔ ہر جگہ پانی کے نلکے اور ہینڈ پمپ بھی لگے ہوئے ہیں۔
سری نگر ہائی وے پر بہت رش اور شور ہوتا ہے جب وہاں سے فقیر ایپی روڈ کی طرف مڑیں تو اسلام آباد کا دوسرا تعمیر شدہ قبرستان ایچ الیون شروع ہو جاتا ہے۔
اس میں بھی اب ہزاروں افراد مدفون ہیں۔ میں ارشد سے ملنے جب عید پر گئی تو ایک عجیب منظر دیکھا، پھول بیچنے والے فقیر ایپی روڈ اور فاسٹ یونیورسٹی تک بیٹھے ہوئے تھے۔
شاید ان کو پتہ تھا عید پر اپنے پیاروں سے زیادہ یاد آتے ہیں اور لواحقین بڑی تعداد میں قبرستان کا رخ کرتے ہیں۔ ان عارضی ٹھیلوں پر پھول کی پتیاں، اگربتیاں، عرق گلاب، پانی، چادریں موجود تھیں۔
میں نے سوچا، واہ قسمت کی ستم ظریفی دیکھو ہمارا دکھ ان لوگوں کے لیے رزق کمانے کا ذریعہ ہے۔ ویسے تو میں قبرستان میں موجود دکان سے چیزیں لیتی ہوں لیکن میں نے سوچا ایک چھوٹی بچی اپنی ماں کے ساتھ سخت گرمی میں سٹال لگا کر بیٹھی ہوئی تھی، اس سے کچھ خرید لیا۔ میں چائلڈ لیبر کے سخت خلاف ہوں لیکن وہ بھیک مانگنے کے بجائے اپنی ماں کے ساتھ رزق حلال کمانے میں لگی تھی۔
اس کی ایک چھوٹی بہن کپڑے کے جھولے میں سو رہی تھی۔ اس نے مجھے کہا، ’باجی، ایک کلو پھول چارسو کے خرید لو۔ میں ڈسکاونٹ بھی دوں گی۔‘
میں اس کو دیکھتی رہی۔ وقت کی تلخیوں نے اس معصوم بچی کو وقت سے پہلے بڑا کر دیا تھا۔
وہ ایک پروفیشنل دکاندار کی طرح ڈیل کر رہی تھی۔ جب میں نے اس سے پھول خرید لیے تو مجھے کہا، ’عیدی بھی دیں۔‘
میں نے اس کو کہا، ’کیا تمہیں پتہ ہے جو لوگ عید کی صبح قبرستان آتے ہیں وہ عید نہیں منا رہے ہوتے؟‘
وہ کہنے لگی، ’کیا آپ جن سے عید ملنے جا رہی ہیں وہ آپ کو عیدی دیتے تھے؟‘
میں نے ہاں میں جواب دیا تو تو وہ کہنے لگی، ’مجھے ان کی طرف سے عیدی دے دیں۔‘
میرے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں نمی بھی آ گئی۔ بہت سے اچھے پل آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ عید مہندی عیدی چوڑیاں سویاں اور گھر کی رونق ارشد۔ پر اس بار سب الگ تھا۔
میں تیار بھی نہیں ہوئی تھی۔ پہلی عید تھی جس پر ارشد نہیں تھا۔ میں نے اس بچی کو ارشد کی طرف سے عیدی دی اور اندر قدم رکھا تو اتنی گاڑیاں اتنا رش لیکن شور نہیں تھا۔ سب ہی رنجیدہ تھے اپنے اپنے پیاروں کو یاد کر رہے تھے۔
لوگ اپنے بچوں کو عید کے کپڑوں میں لائے ہوئے تھے اور بہت سے نمازی نماز عید کے بعد سیدھا قبرستان آئے۔ بہت سی خواتین جن کے پیاروں کو گئے اب بہت سال ہو گئے ہیں وہ حنائی ہاتھوں کے ساتھ قبروں پر پھول ڈال رہی تھیں۔ کچھ لوگ میرے جیسے بھی تھے جن کے غم ابھی تازہ تھے تو وہ تیار نہیں تھے۔
مجھے لوگوں کو یہ چیز اچھی لگی وہ اپنے بچوں کو عید کی شیروانیوں اور لہنگوں، غراروں میں قبرستان لائے ہوئے تھے تاکہ وہ اپنے بزرگوں کو یاد رکھیں اور موت قبرستان کا ڈر ان کے دل سے نکل جائے۔
چوں چوں والے جوتے پہن کر چھوٹے بچے چلتے ہوئے اپنے والدین سے پوچھتے کہ ’یہ کس کی قبر ہے جس پر آپ ہمیں دعا کے لیے لائے ہیں؟‘ تو وہ کہتے، ’یہ شہید پاکستان ارشد شریف ہیں۔‘
لوگ اپنے بچوں سے قبر پر گل پاشی بھی کرا رہے تھے اور ساتھ مغفرت کی دعا بھی۔ میں اکثر قبر کی دوسری طرف بیٹھ کر قرآن پڑھتی ہوں تاکہ میں لوگوں کی سیلفیز یا ویڈیوز میں نہ آؤں۔
اکثر لوگ دعا، قرآن خوانی کے بعد سیلفی بھی لیتے یہ شاید اب رواج بن گیا ہے یہ بھی عقیدت کا ایک اظہار ہے۔ مجھے اس بات پر اعتراض نہیں ہے لیکن بغیر بتائے تصویر لینا مناسب نہیں۔ اگر مجھے کوئی پہچان جائے تو میں نرمی سے معذرت کر لیتی ہوں کہ میری تصویر نہ لی جائے۔
ارشد کو گئے چھ ماہ ہو گئے پر آج بھی اس کی قبر پر پھول تازہ ہیں۔ قبروں کی صفائی اور ان پر پانی چھڑکاؤ کرنے والے ورکر نے مجھے کہا کہ ’لوگ جب اپنے پیاروں سے ملنے آتے ہیں تو آپ کے شوہر ارشد سے بھی مل کر جاتے ہیں۔ ان کے مدفون ہونے کے بعد پھول والو سے پھول لینے والو کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ مجھے بھی پیسے دے کر بار بار قبر کے سنگِ مرمر کو صاف کراتے ہیں۔‘
اس کے جانے کے بعد میں نے ارشد سے کہا، ’اپنے جانے کے بعد بھی تم غریبوں کی مدد کر رہے ہو!‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ارشد کو گلاب کی پتیاں بہت پسند تھی آج بھی ان کی قبر پھول سے بھری ہوئی تھی۔ فضا میں ایک خوشبو تھی جو ارشد کو بہت پسند تھی۔ وہ عمرہ پر گئے تو میرے لیے سعودیہ عرب سے ایک قیمتی پرفیوم لائے جس کا نام ’روزز‘ ہے۔
جب میں نے کھولا تو میں نے کہا، ’یہ تو ویسی خوشبو ہے جیسے لوگ شادی پر برات کے استقبال کے لیے پھول نچھاور کرتے ہیں یا پھر قبروں پر ڈالتے ہیں۔ یہ کیسا پرفیوم ہے اور اتنا مہنگا، دکاندار نے آپ کو لوٹ لیا۔‘
وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا، ’لیکن یہ خوشبو مجھے پسند ہے۔‘
میں نے کہا مجھے ایسا لگا رہا کہ جیسے مجھے سزا کے طور پر پرفیوم دیا گیا خوشبو مجھے پسند ہے لگاؤ تم۔‘ ارشد چلے گئے اور وہ پرفیوم میرے سامنے پڑا ہے اور بلکل ویسی ہی خوشبو انکی قبر سے آتی ہے۔ انکو اچھا لگتا ہو گا کہ ان کی پسندیدہ خوشبو ان کے ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔
عید پر تو قبرستان میں نعت خوان، پانی پلانے والے اور گلے میں نمکو چپس کا ٹھیلہ اٹھائے بھی لوگ موجود تھے۔ وہ اپنی روزی روٹی کا بندوست شہر خموشاں سے کر رہے تھے۔ کچھ قبر بنانے والے قبروں کو پکا کرنے میں مصروف تھے تو کچھ ان کی تزئین و آرائش کر رہے تھے۔
کچھ لوگ شرعی طور پر اپنی قبروں کو صرف مٹی کا بنواتے ہیں تو کچھ اتنے حسین سنگِ مرمر کے ساتھ اپنے پیاروں کی قبر بنواتے ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔
کچھ کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ قبر کو پکی کر سکیں یا وہاں کتبہ بھی لگا لیں۔ بہت سے لوگ باقاعدگی سے اپنے پیاروں کو ملنے آتے ہیں وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ کچھ قبروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں سالوں سے کوئی نہیں آیا۔ ہر کتبے کے پیچھے ایک داستان چھپی ہے۔ لوگوں نے اتنے خراج تحسین لکھے ہوئے ہیں کہ انسان پڑھتا جائے اور انسانی جذبات کو سمجھتا جائے۔ کسی کی امی منوں مٹی تلے چلی گئی کسی کے ابو چھوڑ گئے، کسی کی اولاد تو کسی کا خاوند دنیا سے رخصت ہوئے۔
ارشد کے ساتھ بہت ساری چھوٹی قبریں ہیں جیسے نومولود بچے ہو یا شیرخوار، ان کی چھوٹی چھوٹی سی قبروں میں ان کے والدین کے بڑے بڑے غم صاف نظر آتے ہیں۔
میرے سامنے ایک شیر خوار بچی کا جنازہ آیا، اس کے والد نے اس کو بے بی بیگ اور ایک گلابی کمبل میں لپیٹ رکھا تھا۔ چھوٹا سا جسد خاکی کفن میں لپٹا تھا اور جب اس کو دفن کر کے وہ ڈگماتے قدموں سے خالی کمبل اور بے بی بیگ لے کر واپس جا رہا تھا تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا، ’بتاؤ، کس کا غم بڑا ہے؟‘