امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس میں امریکی مسلمانوں کے لیے عید ملن پارٹی کا انعقاد کیا تاہم ایک مسلمان میئر کو اس تقریب میں شرکت سے روک دیا گیا۔
اس تقریب میں مسلمان سیاست دانوں سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے امریکی مسلمان شریک ہوئے۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن سے کیا گیا۔
امریکی سیکرٹ سروس نے مسلمان میئر محمد خیراللہ کو اس تقریب میں شرکت سے اس وقت روک دیا جب وہ وائٹ ہاؤس پہنچنے والے تھے۔
امریکہ کی سکیرٹ سروس نے پیر کو کہا ہے کہ اس نے پراسپیکٹ پارک سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان میئر کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک عید ملن پارٹی میں شرکت سے روک دیا، جس میں امریکی صدرجو بائیڈن بھی شریک تھے۔
خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق میئرمحمد خیراللہ نے کہا کہ عید الفطر کی تقریبات میں شرکت کے لیے وائٹ ہاؤس پہنچنے سے کچھ دیر قبل انہیں وائٹ ہاؤس سے ایک کال موصول ہوئی۔
جس میں کہا گیا کہ انہیں سیکرٹ سروس کی جانب سے داخلے کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور وہ اس جشن میں شرکت نہیں کر سکتے جہاں بائیڈن نے سینکڑوں مہمانوں سے خطاب کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ سیکرٹ سروس نے انہیں داخل ہونے سے کیوں روکا۔
47 سالہ محمد خیراللہ نے کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز(سی اے آئی آر) کے نیو جرسی چیپٹر کو بتایا کہ انہیں تقریب میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
اس گروپ نے بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایف بی آئی کو دہشت گردوں کی سکریننگ ڈیٹا سیٹ سے معلومات کی ترسیل بند کرے جس میں لاکھوں افراد شامل ہیں۔
گروپ نے محمد خیراللہ کو بتایا کہ سی اے آئی آر کے وکیلوں کی جانب سے 2019 میں حاصل کردہ ڈیٹا سیٹ میں ایک شخص تھا جن کا نام اور تاریخ پیدائش خیراللہ سے ملتے تھے۔
خیراللہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد سفری پابندی کے سخت ناقد تھے۔ اس پابندی کے تحت کئی مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
وہ شامی امریکن میڈیکل سوسائٹی اور وطن فاؤنڈیشن کے ساتھ انسانی ہمدردی کے کام کرنے کے لیے بنگلہ دیش اور شام کا سفر بھی کر چکے ہیں۔
محمد خیراللہ نے پیر کی شام گھر جاتے ہوئے ایک ٹیلی فون انٹرویو میں کہا کہ ’مجھے اس سے حیرانگی، صدمہ اور مایوسی ہوئی۔ یہ مجھے کسی پارٹی میں جانے کی اجازت کا معاملہ نہیں، معاملہ یہ ہے کہ میں گیا کیوں نہیں اور مجھے اس فہرست میں میری شناخت کی وجہ سے روکا گیا۔‘
’اور مجھے نہیں لگتا کہ امریکہ کے اعلیٰ ترین عہدے کو اس طرح کی پروفائلنگ تک گرنا چاہیے۔‘
امریکی سیکرٹ سروس کے ترجمان انتھونی گگلیمی نے تصدیق کی ہے کہ محمد خیراللہ کو وائٹ ہاؤس کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی کہ انہیں کیوں روکا گیا۔
خیراللہ جنوری میں میئر کی حیثیت سے پانچویں مدت کے لیے منتخب ہوئے تھے۔
انتھونی گگلیمی نے ایک بیان میں کہا کہ ’اگرچہ ہمیں اس سے ہونے والی کسی بھی تکلیف پر افسوس ہے لیکن میئر کو آج شام وائٹ ہاؤس کمپلیکس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘
’ہم وائٹ ہاؤس میں اپنی سکیورٹی کارروائیوں کے لیے استعمال کیے جانے والے مخصوص حفاظتی ذرائع اور طریقوں پر مزید تبصرہ نہیں کر سکتے۔‘
وائٹ ہاؤس نے بھی اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
سی اے آئی آر کے نیو جرسی چیپٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر صلاح الدین مکسوت نے اس اقدام کو ’مکمل طور پر ناقابل قبول اور توہین آمیز‘ قرار دیا۔
صلاح الدین مکسوت نے کہا کہ ’اگر اس طرح کے واقعات میئر محمد خیراللہ جیسی ہائی پروفائل اور قابل احترام امریکی مسلم شخصیات کے ساتھ ہو رہے ہیں تو اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے جن کے پاس میئر جیسی رسائی نہیں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد خیراللہ کے مطابق ’اس سے قبل 2019 میں حکام نے انہیں روکا اور نیویارک کے جان ایف کینیڈی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا وہ کسی دہشت گرد کو جانتے ہیں۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ ترکی سے اپنے خاندان کے ساتھ مل کر واپس آ رہے تھے، جہاں ان کی اہلیہ کا خاندان ہے۔
ایک اور موقع پر انہوں نے کہا کہ جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملک واپس آئے تھے تو انہیں مختصر عرصے کے لیے امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پر روکا گیا تھا۔
اس گروپ کا کہنا ہے کہ محمد خیراللہ نے وائٹ ہاؤس میں عید کی تقریبات میں مدعو کرنے کے لیے مقامی مسلم قیادت کے نام مرتب کرنے میں نیو جرسی ڈیموکریٹک پارٹی کی مدد کی تھی اور ویک اینڈ پر نیو جرسی کے گورنر کے گھر ہونے والی ایک تقریب کے مہمان تھے۔
خیراللہ شام میں پیدا ہوئے تھے، لیکن 1980 کی دہائی کے شروع میں حکومتی کریک ڈاؤن کے دوران ان کا خاندان بے گھر ہو گیا تھا۔ ان کا خاندان پہلے سعودی عرب گیا ور پھر 1991 میں پراسپیکٹ پارک منتقل ہوا۔ اس وقت سے وہ وہاں رہ رہے ہیں۔
انہیں 2000 میں امریکی شہریت ملی اور 2001 میں شہر کے میئر کی حیثیت سے اپنی پہلی مدت کے لیے منتخب ہوئے۔ انہوں نے 14 سال اپنی کمیونٹی میں ایک رضاکار فائر فائٹر کے طور پر بھی گزارے۔
خیراللہ نے کہا کہ انہوں نے 2012 اور 2015 کے درمیان انسانی امداد کی تنظیموں کے ساتھ سات بار شام گئے جب ملک کے بیشتر حصے میں خانہ جنگی نے تباہی مچا رکھی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں شامی ہوں اور آپ جانتے ہیں کہ ہم نے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر جو کچھ دیکھا اسے دیکھنا اور لوگوں کی مدد نہ کرنا بہت مشکل تھا۔ میرا مطلب ہے کہ ہم بہت بے بس محسوس کرتے ہیں۔‘