پاکستان کی عدالت عظمٰی میں اصلاحات سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ نے پیر کو اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ قانون سازی سے متعلق پارلیمنٹ میں ہونے والی کارروائی کا ریکارڈ منگل کو عدالت میں جمع کروا دیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم آٹھ رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
پیر کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے پارلیمانی کارروائی سے متعلق دستاویزات جمع کروا دی ہیں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کے دفتر سے اس ضمن میں باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے اور قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے اور ان کے مطابق قانون میں جو معاملات طے کیے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اس معاملے پر سپریم کورٹ کا فل بینچ تشکیل دینے کی بھی استدعا کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے بھی سوالات اٹھائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے پر گذشتہ سماعت کے دورن حکومت عدالت میں کہہ چکی ہے کہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں۔
حکومت نے کہا کہ عدالت کے سامنے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار، عدلیہ کی آزادی اور اداروں کے اختیارات کی تقسیم کے آئینی سوالات ہیں۔
سپریم کورٹ قانون کے خلاف درخواستیں اہم نوعیت کا آئینی معاملہ ہیں، ماضی میں آئینی نوعیت کے ایسے مقدمات کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دیے گئے۔
حکومت نے کہا کہ فل کورٹ استدعا کا مقصد کسی جج کو شامل کرانا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے تمام ججز پر وفاق کا اعتبار ہے، لہٰذا مقدمے میں سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
21 اپریل کو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق چیف جسٹس کے از خود نوٹس اور بینچ تشکیل دینے کا اختیار کم کرنے کا بل باقاعدہ قانون بن چکا ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے 13 اپریل کو اس بل پر تاحکم ثانی عمل درآمد کرنے سے روک دیا تھا، ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کہنا تھا کہ ’ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔‘
لیکن حکومت نے اس بارے میں عدالت عظمٰی کے اعتراضات کو مسترد کر دیا تھا۔