سپریم کورٹ آف پاکستان تو اکثر خبروں میں تقریبا روزانہ رہتی ہے لیکن منگل کو سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی 11 گھنٹوں تک گرفتاری نہ دینے کی کوشش کی وجہ سے میڈیا کی مسلسل توجہ کا مرکز بنا رہا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں تحریک انصاف کے کارکنان اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور اسی سلسلے میں بدھ کو رات گئے رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری دن 12 بجے سے سپریم کورٹ میں وکلا کے کمرے میں بیٹھے تھے، جبکہ باہر پولیس کی آٹھ گاڑیاں ان کا انتظار کر رہی تھیں۔
تاہم سپریم کورٹ میں تقریباً ساڑھے 11 گھنٹے رکنے کے بعد رات گئے فواد چوہدری گرفتار کر لیا گیا۔
سپریم کورٹ کی عمارت سے باہر نکل کر پارکنگ سے نیچے شاہراہ دستور تک وہ صحافیوں کے جھرمٹ میں چل کر گئے جہاں سفید رنگ کی گاڑی میں انہیں بٹھا کر لے جایا گیا ہے۔ اس موقع پر ڈی ایس پی خالد اعوان بھی گاڑی میں موجود تھے۔
فواد چوہدری جب پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ کی عمارت سے باہر نکلے تو وہاں پہلے سے موجود پولیس اہلکاروں نے انہیں حراست میں لے لیا۔
اس سے قبل دن میں جب فواد چوہدری سپریم کورٹ آئے تو وکیل کے یونیفارم میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے عمران خان کی گرفتاری جائز قرار دینے والے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف آئینی درخواست دائر کی ہے۔ لیکن شام کو فواد چوہدری کو اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست بھی دائر کرنی پڑ گئی لیکن تب تک جج گھروں کو روانہ ہو چکے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد میری گرفتاری کا بھی خطرہ ہے: ’میں نے ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔ 12 مئی کو میرا مقدمہ ہائی کورٹ میں مقرر ہے۔ ہائی کورٹ کی تاریخ تک مجھے حفاظتی ضمانت دی جائے۔‘
فواد چوہدری سے صحافی بار بار پوچھ رہے تھے کہ آپ نے کب جانا ہے تو وہ ٹال مٹول کر کے کبھی صحافیوں کے کمرے اور کبھی وکلا روم میں بیٹھتے رہے۔
باہر روسٹرم پر فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کی اور پریس کانفرنس کے بعد بجائے باہر واپس جانے کے وہ ایک بار پھر سپریم کورٹ عمارت کے اندر چلے گئے تو اس پر باہر موجود صحافیوں کے قہقہوں نے ان کا اندر تک پیچھا کیا۔
ایک صحافی نے فقرہ کسا، ’لگتا ہے جب تک فواد چوہدری یہاں سے نہیں جائیں گے، تب تک ہم سب کو رات گئے تک ادھر سپریم کورٹ میں ہی ڈیوٹی کرنی پڑے گی۔‘