’رئیل سٹیٹ میں جب میں شروع شروع میں آئی تو لوگوں کو شاید سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ایک عورت کو کس طرح سنجیدگی سے لیا جائے۔ وہی روایتی جو طریقہ ہوتا ہے پاکستان میں کہ ریسپیشن پر لڑکیاں ہوں، جو مسکراہٹ کا تبادلہ کریں اور بس اس کے بعد کہانی ختم ہوجاتی ہے۔‘
لیکن اسلام آباد کی مہناز عامر یہ کہانی یہاں ختم کرنے کی بجائے اسے ایک ایسے راستے پر لے آئیں، جس پر چل کر اور بہت سی خواتین اپنے لیے کیریئر کی راہیں متعین کرسکتی ہیں۔
مہناز گذشتہ دو سال سے اسلام آباد میں رئیل سٹیٹ کے شعبے میں بحیثیت پراپرٹی ڈیلر کام کر رہی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 12، 15 سال ہوٹل انڈسٹری میں ڈائریکٹر سیلز اینڈ جنرل مینیجر کی حیثیت سے کام کرچکی ہیں۔
ایک فیس بک گروپ کے توسط سے جب مہناز سے پہلی بار رابطہ ہوا اور پھر روبرو ملاقات بھی ہوئی تو ان کی باتوں میں، ان کے خیالات میں ایک امید کی کرن نظر آئی۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملکی معیشت کی صورت حال کچھ بہت بہتر نہیں ہے، دوسرا کرونا وائرس نے بھی اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں، مہناز نے خالصتاً مردوں کا شعبہ سمجھی جانے والی رئیل سٹیٹ کی فیلڈ میں قدم رکھے۔
مہناز بتاتی ہیں کہ کس طرح ہوٹل انڈسٹری اور ٹوررازم کے تبدیل ہوتے ہوئے حالات کو دیکھ کر وہ اپنی مارکیٹنگ اور سیلز کی صلاحیتوں کو استعمال میں لائیں اور ہاؤسنگ اور رئیل سٹیٹ کے شعبے میں خود کو منوانے کی ٹھانی، لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا اور انہیں اس فیلڈ میں پہلے سے موجود مرد پراپرٹی ڈیلرز کی جانب سے مزاحمت اور تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
بقول مہناز: ’ڈیلنگز کو شروع کرنا، ڈیلنگز کو ختم کرنا اور کلائنٹ کو پوری طرح سو فیصد مستند معلومات دینا، ان کو لگتا تھا کہ میرے پاس نہیں ہے اور مجھے کہتے تھے کہ میڈم آپ کو یہ نہیں پتہ، آپ کو وہ بھی نہیں پتہ تو میں نے اس کو ایک چیلنج کی طرح لیا کہ ٹھیک ہے، نہیں پتہ تو پتہ کرکے دکھاؤں گی۔‘
مہناز سمجھتی ہیں کہ ایک عورت اگر محنتی ہو اور اس کی توجہ مرکوز ہو تو وہ کسی بھی شعبے میں بہت جلدی اپنا نام بنا سکتی ہے۔
’جب میں اس فیلڈ میں آئی، جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ عورتوں کی ہے ہی نہیں یہ فیلڈ، عورت کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے، تو میں آپ کو صحیح بتاؤں کہ مجھے بھی نہیں معلوم تھا، لیکن عورت کو اللہ نے ایک بہت بڑی صلاحیت دی ہے۔ اس میں بہت جلدی سیکھنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔ وہ بیک وقت دو کام بڑی آسانی سے کرسکتی ہے جو مرد نہیں کرسکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رئیل سٹیٹ کو مکمل طور پر مردوں کا شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک خاتون کے لیے اس فیلڈ میں آنا یقیناً بہت سوں کے لیے حیران کن تھا اور بہت سے لوگوں نے شروع میں انہیں اتنا سنجیدہ بھی نہیں لیا۔
بقول مہناز: ’کبھی کبھی کلائنٹس بہت حیران ہوجاتے ہیں کہ پڑھی لکھی عورتیں اس فیلڈ میں آئی ہیں اور اس چیز کو ڈیل کر رہی ہیں لیکن جب وہ ایک دفعہ بات کرتے ہیں اور جب ہم ان کی مطلوبہ ضروریات کے مطابق ان کی توقعات پر پورا اترتے ہیں تو وہ آپ کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ‘
’یہ میرا تجربہ ہے جو میں بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ جب ایک عورت بہت محنت کرتی ہے اور اس کی توجہ مرکوز ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ کو منواتی ہے تو مرد اسے دیگر مردوں سے زیادہ سنجیدگی سے لیتا ہے اور اس پر بھروسہ کرتا ہے، اعتماد کرتا ہے۔ کیونکہ ہو یہ رہا ہوتا ہے کہ اس کو لگتا ہے کہ عورت اتنا فراڈ نہیں کرے گی، اتنا فریب یا دھوکہ نہیں دے گی۔‘
بحیثیت ایک خاتون پراپرٹی ڈیلر مہناز دیگر خواتین کو درپیش پراپرٹی کے مسائل بھی حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
بقول مہناز: ’مجھے یہ لگتا ہے کہ ہم جیسی عورتیں جب ایک قدم آگے رکھتی ہیں تو ہمارے پیچھے بہت ساری باہمت عورتیں بھی قدم بڑھا رہی ہوتی ہیں۔ میرے پاس کافی لڑکیاں آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہمارے پاس اتنا سرمایہ ہے، ہمیں کوئی چھوٹی سی انویسٹمنٹ کروا دیں تو میں ان کی رہنمائی کردیتی ہوں۔‘
’اسی طرح کچھ عورتیں ایسی بھی آتی ہیں، جن کو گھر لینے میں بڑی پرابلم ہوتی ہے، وہ اکیلی مائیں (سنگل مدر) بھی ہوتی ہیں یا سنگل پیرنٹ ہوتی ہیں یا وہ شادی شدہ نہیں ہوتیں اور وہ گھر لینا چاہتی ہیں اور ہمارے اردگرد کے جو لوگ ہیں، بہت ساری وجوہات کی بنا پر ان کو گھر فراہم کرنا نہیں چاہتے اور آپ کو پتہ ہے کہ وہ بہت ساری وجوہات کیا ہوسکتی ہیں لیکن اگر عورتیں آئیں اور کام کریں اس فیلڈ میں تو مجھے یقین ہے کہ عورتیں عورتوں پر زیادہ بھروسہ کریں گی۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’چونکہ ملک کے بڑے شہروں میں ورکنگ ویمنز کی شرح بڑھ رہی ہے اور لڑکیاں خودمختار ہونے کی وجہ سے اپنی سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتی ہیں تو اگر ہم انہیں اس شعبے میں ایک ذریعہ فراہم کریں تو لڑکیاں بہت اعتماد کرتی ہیں اور میرا بہت اچھا تجربہ رہا ہے۔‘
مہناز سمجھتی ہیں کہ کوئی بھی شعبہ کسی ایک جنس کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ اگر عورت محنتی ہو، اس کی توجہ مرکوز ہو اور وہ کام کرنا چاہتی ہو تو یہ معاشرہ اس کو قبول بھی کرتا ہے اور اس کے لیے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔