جمعرات کو پورے ملک کی نظریں ایک بار پھر سپریم کورٹ کی کمرہ عدالت نمبر ون پر مرکوز تھیں جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان نے پیش ہونا تھا۔
آئی جی کو عدالت نے حکم دیا تھا کہ سابق وزیراعظم کو شام ساڑھے چار بچے عدالت میں پیش کرنا ہے تاہم وہ 70 منٹ کی تاخیر سے عدالت پہنچے۔
سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ون کے باہر ججز کے چیمبر میں لا آفیسرز کے طور پر کام کرنے والی خواتین وکلا موبائل فونز ہاتھوں میں پکڑے بے چینی سے عمران خان کا انتظار کرتی رہیں۔ سب باہر آنے پر سابق وزیراعظم کا ایک ویڈیو کلپ ریکارڈ کرنے کی امید کر رہی تھیں۔
عمران خان کی آمد کے موقع پر سادہ لباس میں ملبوس سکیورٹی اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد کورٹ روم نمبر ون کے اطراف میں موجود تھی۔
عمران خان کے کمرہ عدالت میں پہنچنے کے بعد ججز عدالت میں آئے اور اس وقت سابق وزیراعظم کے وکلا روسٹرم پر موجود تھے۔
گہرے نیلے رنگ کا شلوار قمیص اور واسکٹ میں ملبوس، کالا چشمہ لگائے مکمل طور پر صحت مند نظر آنے والے عمران خان سماعت کے دوران روسٹرم پر ہی کھڑے رہے۔
ججز کے عدالت میں داخل ہوتے ہی سابق وزیراعظم نے کالا چشمہ اتار کر جیب میں رکھ لیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کو دیکھ کر انگریزی میں کہا: ’ویلکم، آپ کو دیکھ کر اچھا لگا۔‘
اس کے بعد عمران خان کو بھی روسٹرم پر بلا لیا گیا تو وہ اپنے وکلا کے جھرمٹ میں جا کر کھڑے ہوئے۔
40 منٹ جاری رہنے والی سماعت کے دوران عمران خان کو بتایا گیا کہ ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے وہیں انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ آج رات سپریم کورٹ کے پولیس لائنز میں مہمان ہوں گے۔
سماعت ختم ہونے کے بعد عمران خان دس منٹ تک کمرہ عدالت میں ہی بیٹھے اور صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کرتے رہے۔
غیرملکی صحافی کے سوال پر کہ کیا وہ آرمی افسر پر لگائے گئے الزام پر قائم ہیں؟ عمران خان نے جواباً کہا: ’بالکل، مجھے سو فیصد یقین ہے۔ دو دفعہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب بھی تحقیقات ہوں گی تو یہ ثابت ہو جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے عمران خان کے دس مہمانوں کو اسلام آباد پولیس لائنز کے گیسٹ ہاؤس میں آنے اور رہنے کی اجازت دی ہے۔اسی حوالے سے صحافیوں نے ان سے دریافت کیا کہ ان دس افراد میں کون کون شامل ہو گا؟ جس پر عمران خان نے مسکراتے ہوئے کہا: ’سب سے پہلے تو بشری بی بی کو بلائیں۔‘
ایک دوسرے سوال میں دریافت کیا گیا کہ کیا نیب کے علاوہ بھی ان سے کوئی ملا؟
عمران خان نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا: ’کوئی نہیں ملا۔‘
ان کی گرفتاری کے بعد ملک میں ہونے والے پرتشدد واقعات سے متعلق سوال پر عمران خان نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بالکل کچھ نہیں پتہ، نہ ٹی وی تھا، نہ فون، نہ کسی نے کچھ بتایا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری سے متعلق سوال پر بھی انہوں نے حیرانی کا اظہار کیا۔