القادر ٹرسٹ کیس: عمران خان کے علاوہ دیگر ملوث ملزمان کون ہیں؟

القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کے علاوہ بشریٰ بی بی اور ملک ریاض سمیت دیگر کئی افراد کو ملوث قرار دیا گیا تھا مگر ان کے خلاف ابھی تک قانون حرکت میں نہیں آ سکا۔

القادر یونیورسٹی کو بحریہ ٹاؤن نے 458 کنال زمین عطیہ کی تھی (انڈپینڈنٹ اردو) 

اسلام آباد میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنے دور حکومت میں القادر ٹرسٹ کے نام پر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس معاملہ پر نیب میں بدعنوانی کا کیس بنایا گیا جس میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے ذریعے رقم کی ایڈجسٹمنٹ سے زمین فراہم کرنے کا الزام ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق ’60 ارب روپے کا خزانے کو نقصان پہنچایا گیا اور 60 ارب روپے مالیت کی اراضی لی گئی۔‘

القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کے علاوہ ملک ریاض، سابق خاتون اول بشریٰ بی بی ان کی قریبی دوست فرحت شہزادی عرف فرح خان، شہزاد اکبر، زلفی بخاری، بابر اعوان و دیگر کو ملوث قرار دیا گیا۔

نیب کی جانب سے بنائے گئے اس مقدمہ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے دیگر ملزمان کی گرفتاری کیوں عمل میں نہیں لائی جا سکی؟

مذکورہ کیس میں ملک ریاض پر ذاتی مفادات کے لیے سینکڑوں ایکڑ زمین فراہم کرنے کا الزام ہے.   

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے جاری اعلامیہ میں بھی کہا گیا ہے کہ القادر ٹرسٹ اراضی کیس کے اہم افراد نیب آر ڈبلیو پی میں زیر تفتیش ہیں۔ تفتیش کے مطابق عمران خان، بشریٰ بی بی، زلفی بخاری، اور بابر اعوان نے 2019 میں القادر یونیورسٹی کے قیام کے مقصد سے ٹرسٹ بنایا۔

بحریہ ٹاؤن نے ٹرسٹ کو 458 کنال، چار مرلہ، 58 مربع فٹ زمین الاٹ کی۔

رانا ثنا اللہ کے مطابق ’ڈیل اور سکینڈل اس وقت شروع ہوا جب عمران خان نے اپنے شیئرز فکس کیے اور بحریہ ٹاؤن نے عمران خان اور ملک ریاض کی ناجائز ملی بھگت سے منتقل کی گئی زمین کی قیمت کم کی۔

’انہوں نے 2021 میں زیر تعمیر تعلیمی ادارے کے لیے آپریشنل سرگرمیوں کے لیے عطیات کے نام پر لاکھوں روپے وصول کرنے والے ٹرسٹ کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے، جسے ابھی تک پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن (پی ایچ ای سی) نے یونیورسٹی کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔‘

رانا ثنا اللہ کی جانب جاری تفصیلات کے مطابق ’ٹرسٹ کو آپریشنل اخراجات کے لیے 180 ملین روپے ملے، لیکن ریکارڈ میں صرف 8.52 ملین روپے دکھائے۔ دسمبر 2019 میں عمران خان کی کابینہ کے اجلاس میں جس کے تحت برطانیہ میں وصول کیے گئے 50 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے بحریہ ٹاؤن سے ایڈجسٹمنٹ کی۔‘

رانا ثنا اللہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’عطیہ کی گئی کل زمین میں سے 240 کنال خان کی اہلیہ کی قریبی ساتھی فرح خان کے نام منتقل کی گئی اور ملی بھگت سے منتقل کی گئی زمین کی قیمت کو کم نہیں سمجھا گیا۔‘

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی ایک بار ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ ’عمران خان نے ملک ریاض کو 4,275 کروڑ روپے (19 کروڑ پاؤنڈ) واپس دیے تھے جو برطانوی حکام نے ضبط کر لیے تھے۔ اتفاق سے اسی وقت ملک ریاض نے سینکڑوں ایکڑ زمین ایک ٹرسٹ کو عطیہ کر دی جس کے ٹرسٹی عمران خان، بشریٰ بی بی اورفرح خان ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے معاملہ میں عمران خان کے علاوہ ملک ریاض، بشریٰ بی بی، فرح خان، زلفی بخاری، بابر اعوان بھی ملوث ہیں۔

نیب کی جانب سے اس کیس میں ابھی تک عمران خان کے علاوہ کسی بھی شخصیت کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ بشریٰ بی بی، زلفی بخاری، بابر اعوان پاکستان میں موجود ہیں ملک ریاض کافی بااثر سمجھے جاتے ہیں، شہزاد اکبر اور فرح خان پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں۔

فرح خان اور بشریٰ بی بی کا نام توشہ خان کیس میں بھی لیا گیا اور محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب میں بھی درج مقدمات میں بشریٰ بی بی اور فرح خان کا نام سامنے آ چکا ہے۔

عمران خان کو بدھ کو اسلام آباد جج کے سامنے پیش کیا گیا جہاں توشہ القادر ٹرسٹ کیس اور توشہ خانہ کیس کی سماعت ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مقدمہ میں ملوث دیگر ملزمان کے خلاف بھی کارروائی ہو سکے گی؟

 نیب کے ایک پراسیکیوٹر علی ٹیپو کے مطابق ’موجودہ حکومت نیب قوانین میں ترامیم کر چکی ہے۔ نئی ترامیم میں 90 دن کی بجائے ریمانڈ کا عرصہ کم کر کے 14 دن کر دیا گیا ہے اور ان ترامیم کے بعد اب عمران خان آسانی سے ضمانت حاصل کر سکتے ہیں۔ اب یہ اختیار ٹرائل کورٹ کو بھی ہے کہ وہ انہیں ضمانت دے سکے۔‘

علی ٹیپو ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کے علاوہ دیگر ملزمان کو شامل تفتیش کیے بغیر انکوائری مکمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی حتمی فیصلہ دیا جا سکتا ہے، لہٰذا تمام ملزمان کی گرفتاری اور ان سے تفتیش ضروری ہے۔ البتہ دستیاب ثبوتوں اور شہادتوں کی روشنی میں عدالت نے طے کرنا ہے کہ جرم مین کس ملزم کا کتنا کردار یا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کے کرپشن کیسوں کے اندر جرم ثابت ہونے پر دس سے 14 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پراسیکیوشن پر انحصار ہوتا ہے کہ وہ کیس میں کس ملزم پر کس لحاظ اور نوعیت کا جرم ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان