ترکی میں اتوار کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے لیے پولنگ شروع ہو چکی ہے۔ ملک بھر میں مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے پولنگ کا آغاز ہوا جو شام پانچ بجے تک جاری رہے گی۔
یہ انتخابات اس وجہ سے بھی اہم قرار دیے جا رہے ہیں کہ یہ صدر رجب طیب اردوغان کی اقتدار پر 21 سالہ گرفت کو مزید طول دے سکتے ہے یا ان کی جگہ ایک سیکولر جماعت اقتدار میں آ سکتی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ترکی کے سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والے رہنما اور ان کی پارٹی کے لیے ریفرنڈم میں تبدیل ہو گیا ہے۔
دوسری جانب نیشنل الائنس ان انتخابات میں ایک بڑا اتحاد ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ قومی اتحاد موجودہ صدر رجب طیب اردوغان کی مخالفت میں چھ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل ہے، جس کی قیادت اہم امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو کر رہے ہیں۔
ترک میڈیا کے مطابق رجب طیب اردوغان اور اپوزیشن رہنما کمال قلیچ داراوغلو کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔
ترک خبر رساں ادارے ٹی آر ٹی کے مطابق یہ الیکشن ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں جب ترکی کو معاشی بدحالی، مہنگائی اور فروری میں آنیوالے شدید زلزلے کا سامنا کرنا پڑا۔
رواں انتخابات میں ساڑھے چھ کروڑ سے زیادہ ووٹرز اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے جب کہ اس بار 60 لاکھ نئے ووٹرز شامل ہوئے ہیں جب کہ 30 سے 40 لاکھ ووٹرز بیرون ممالک سے ووٹ ڈال سکیں گے ۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمان کی 600 نشستوں کے لیے 24 پارٹیاں اور 151 آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
ترکی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت رپبلکن پیپلز پارٹی (جمہوریت خلق پارٹی) ہے۔
سیکیولر ترک جمہوریہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرف سے تشکیل دی گئی یہ جماعت ترک قوم پرستی کے نظریے کی وفادار ہے اور اسے سیاست کے مرکز میں بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا ہے۔
رپبلکن پیپلز پارٹی نے نیشن الائنس نامی اتحاد میں خود کو دیگر قوم پرست اور قدامت پسند قوتوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے، جن کے مشترکہ ووٹ اردوغان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے لیے مشکل ثابت ہو سکتے ہیں۔
حزب اختلاف کے رہنما کمال قلیچ داراوغلو کو ’نیشن الائنس‘ نے اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے، وہ حزب اختلاف کی چھ جماعتوں کے اتحاد کے متفقہ امیدوار ہیں۔
وہ نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے سابق سرکاری افسر ہیں اور اس لحاظ سے وہ ترکی کے طاقتور صدر اردغان سے بالکل مختلف شخصیت ہیں۔
قلیچ داراوغلو ایک انتہائی تجربہ کار سیاست دان ہیں، جو سال 2002 میں رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔
قلیچ داراوغلو نے 2011 میں شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ترکی میں پناہ لینے والے مہاجرین کی بڑی تعداد کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس کے علاوہ حزب اختلاف نے ووٹرز کو یقین دلایا ہے کہ وہ اردوغان کے دور اقتدار میں تعلقات تیزی سے خراب ہونے کے بعد یورپ کے ساتھ پیدا ہونے والے روابط کو بہتر کرے گی۔
دوسری جانب رجب طیب اردوغان پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ زلزلے سے لاکھوں متاثرہ افراد کو متاثرہ ایک سال کے اندر نئے گھر فراہم کریں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 69 سالہ اردوغان نے ملک میں افراط زر کو 20 فیصد اور 2024 میں 10 فیصد سے کم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ وہ شرح سود میں کمی کرتے رہیں گے۔
اردوغان نے ترکی کو ایک فوجی اور جیو پولیٹیکل ہیوی ویٹ بنا دیا ہے جو شام سے یوکرین تک پھیلے ہوئے تنازعات میں کردار ادا کر رہا ہے۔
اسی لیے یورپ اور مشرق وسطیٰ دونوں کے لیے نیٹو کے اس رکن ترکی میں انتخابات کے نتائج کو واشنگٹن اور برسلز کے لیے اتنا ہی اہم بنا دیا ہے جتنا کہ دمشق اور ماسکو کے لیے۔
پولز کے مطابق 74 سالہ سیکولر اپوزیشن لیڈر کمال قلیچ داراوغلو پہلے راؤنڈ میں جیتنے کے لیے درکار 50 فیصد کی حد کو عبور کرنے کے قریب ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح نتائج نہ نکلنے کی صورت میں 28 مئی کو ہونے والا رن آف کا مرحلہ اردوغان کو دوبارہ منظم ہونے اور بحث کو دوبارہ ترتیب دینے کا وقت دے سکتا ہے۔
لیکن وہ پھر بھی اپنے اقتدار میں ترکی کے سب سے سنگین معاشی بحران کا سامنا کریں گے اور فروری میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کے نقصانات سے نمٹنے کا بوجھ بھی ان کے کندھوں پر ہو گا جس میں 50 ہزار سے زیادہ جانیں گئیں۔
ترکی کے انتخابات میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والے 18 سالہ کیوانک دل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ معاشی مشکلات کے باعث وہ اور ان جیسے نوجوان کمال اوغلو کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں اپنے مستقبل کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں ہوں۔‘
ان کے بقول: ’اردوغان جتنے چاہیں ٹینک اور ہتھیار بنا سکتے ہیں بنا لیں لیکن جب تک میری جیب میں ایک پیسہ بھی نہ ہو تو میں اس چیز کی عزت نہیں کر سکتا۔‘
ان کے برعکس کنڈرگارٹن ٹیچر ڈینیز ایدیمیر نے کہا کہ ’صدر اردوغان یہ انتخابات جیت لیں گے۔‘
انہوں نے حالیہ دہائیوں میں ترکی کی سماجی اور اقتصادی ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے اس خیال کو مسترد کر دیا کہ چھ جماعتوں کا اتحاد مؤثر طریقے سے حکومت کر سکتا ہے۔
46 سالہ ٹیچر کا کہنا تھا کہ ’ہاں ملک میں مہنگائی ہے لیکن کم از کم یہاں خوشحالی تو ہے۔‘