سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بیرونی کے ساتھ اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے اور پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی سے ان کا سیاسی کردار مشکل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان متعدد بار خود تسلیم کر چکے ہیں کہ انہیں سیاست سے مائنس کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حکومتی وزرا کی جانب سے بھی پی ٹی آئی کو نو مئی کے بعد کالعدم قرار دیے جانے کے اشارے دیے گئے ہیں، تاہم ان بیانات کی تردید بھی دبے لفظوں میں کی گئی ہے۔
دوسری جانب کور کمانڈرز کانفرنس اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں نو مئی کے واقعات میں ملوث پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس صورت حال میں سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں تحریک انصاف کی جانب سے نو اور 10 مئی کو جس طرح عسکری اور شہری تنصیبات و املاک کو نشانہ بنایا ہے، اس کی ’قیمت توادا کرنی پڑے گی‘۔
پی ٹی آئی کو سیاسی نقصان کیا ہوگا؟
سینیئر صحافی و تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق: ’ویسے تو پی ٹی آئی گذشتہ کئی ماہ سے مذاحمتی سیاست کر رہی ہے۔ زمان پارک واقعات پر بھی قیادت اور کارکنوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں لیکن نو مئی کو جلاؤ گیھراؤ اور توڑ پھوڑ کے بعد کارروائیاں مزید تیز ہوگئیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس صورت حال میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی سے ان کا سیاسی کردار مشکل ہوتا دکھائی دے رہا ہے البتہ یہ بات الگ ہے کہ جتنے لیڈروں کو بھی مائنس کرنے کی ماضی میں کوششیں ہوئی ہیں، وہ تو کامیاب نہ ہوسکیں۔‘
تجزیہ کار سلمان غنی کے خیال میں نواز شریف ہوں، بے نظیر یا الطاف حسین انہیں مائنس کرنے کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتیں اے این پی، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم بھی ختم نہیں ہوئیں۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’اگر عمران خان کو مائنس کرنے کی کوشش کی گئی یا پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دیا گیا تو یہ اقدام بھی شاید اتنا موثر نہ ہو، لیکن جس طرح ملکی تاریخ میں پی ٹی آئی نے پہلی بار فوجی تنصیبات پر حملے کیے ہیں، اس سے ان کے مستقبل کے بارے میں زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔‘
پی ٹی آئی ایسے ردعمل تک کیوں پہنچی؟
سیاسی تجزیہ کار سلیم بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بھی سیاسی جماعت ہو یا لیڈر اسے سیاست آئینی دائرے میں رہ کر ہی کرنا ہوتی ہے لیکن جو ردعمل تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کی جانب سے آتا رہا، خاص طور پر نو مئی کو جو کچھ کیا گیا، اس سے لگتا ہے کہ اخلاقی تو کیا قانونی حدود بھی پار کی گئیں۔‘
سلیم بخاری کے بقول: ’جس طرح فوجی تنصیبات اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے بعد جس طرح کور کمانڈرز کانفرنس اور قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں پی ٹی آئی قیادت اورکارکنوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس سے مستقبل میں عمران خان یا تحریک انصاف کی سیاست چلنا مشکل ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی آئی کے کئی رہنما نو مئی کے جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں ملوث افراد کے تحریک انصاف سے تعلق کے بارے میں انکار کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت کئی رہنما کہہ چکے ہیں کہ ان افراد کا ان کی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ ’ایجنسیوں‘ کے لوگ تھے جنہیں ’پرامن‘ احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
تجزیہ کار سلیم بخاری کے مطابق: ’تحریک انصاف کو بیرونی کے ساتھ اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور اسد عمر خود مناسب مشورے دیتے دکھائی نہیں دیے۔ پارٹی قیادت کا بھی موجودہ صورت حال میں یہ خیال ہوسکتا ہے کہ عمران خان کے بعد پارٹی ان کے حوالے ہوجائے گی۔
’پارٹی رہنماؤں میں پہلے سے گروپنگ ہے، پہلے جہانگیر ترین بھی اسی کوشش میں رہے کہ پارٹی ان کے حوالے ہو۔ اب موجودہ لیڈرز یہی خواہش رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان کو مشورے دینے والے ان سے کیا کروانا چاہتے ہیں؟ پارٹی سربراہ کو علم ہونا چاہیے کہ ان کے کسی بھی ردعمل سے کیا نقصان ہوسکتا ہے؟ جس طرح کی کارروائیاں پی ٹی آئی کے خلاف شروع ہیں ان میں سیاسی طور پر پارٹی کو متحد رکھنا اور اپنی شہرت کو برقرار رکھنا آسان دکھائی نہیں دیتا۔‘
سلیم بخاری نے کہا کہ ’جس طرح تحریک انصاف نے انتشار پھیلایا ہے کسی نے ایسا کرنے کی جرات نہیں کی، لہذا جس طرح کور کمانڈرز کا متفقہ فیصلہ سامنے آیا ہے اس سے لگتا ہے پورا ادارہ متفق ہے کہ عمران اور دیگر رہنماؤں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے۔‘