امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان پر ریموٹ کنٹرولڈ فضائی فوجی نگرانی بڑھانا چاہتا ہے۔
وزارت دفاع کے انسپکٹر جنرل نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ اس منصوبے کے مطابق خطے میں امریکی ڈرونز اور فضائی نگرانی کے آلات کے مشن کی مدت اور قیام میں اضافہ کیا جائے گا۔
بی بی سی پشتو کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کا مقصد نام نہاد اسلامک سٹیٹ (آئی ایس آئی ایس) کے عسکریت پسندوں کی طرف سے امریکہ کے خلاف افغانستان سے خطرات کے لیے تیاری کرنا ہے۔
امریکی وزارت دفاع کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس سال کے آغاز سے امریکی فوج کے کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا نے افغانستان کی اپنی انٹیلی جنس نگرانی میں موجود خلا کو پر کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی محکمہ دفاع افغانستان سے ممکنہ دہشت گردی کے خطرات کی مکمل نگرانی نہیں کر سکتا۔
جنرل مائیکل کوریلا نے سینیٹ کے مسلح افواج کے اجلاس میں کہا کہ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد القاعدہ اور داعش خراسان برانچ کے خلاف تجزیاتی وسائل، معلومات اور انٹیلی جنس وسائل اور نگرانی کی سطح میں کمی واقع ہوئی تھی جبکہ حملے کا خطرہ اپنی جگہ قائم ہے۔
جنرل کوریلا نے مزید کہا کہ داعش خراسان نے خطے میں اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے اور وہ افغانستان سے باہر ان کے بیرونی مفادات اور امریکہ کے خلاف اپنے حملوں کو بڑھانا چاہتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈر نے کہا کہ وزارت دفاع کے پاس ممکنہ دہشت گرد حملوں کی مکمل تصویر موجود نہیں ہے۔
اس سینیئر امریکی جنرل نے یہ بھی پیش گوئی کی تھی کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی داعش خراسان شاخ افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سال کی اس سہ ماہی میں طالبان کے مقامی عہدیداروں اور کابل میں طالبان کی وزارت خارجہ پر اپنے حملے جاری رکھے گی، جس کا آغاز کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے سے ہوا تھا۔
اگرچہ جنرل کوریلا کا خیال ہے کہ طالبان کا مقصد داعش خراسان کی شاخ کو شکست دینا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل کے دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے قابل نہیں ہیں۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ داعش چھ ماہ کے اندر امریکہ یا مغرب پر حملہ کر سکتی ہے۔
امریکی جنرل نے یہ بیانات اس وقت دیے جب امریکی سفارت کار طالبان کے ساتھ افغانستان میں امریکیوں کی حفاظت، امریکی اتحادیوں اور افغانستان میں ان کی مدد کرنے والوں کی محفوظ نقل و حمل، معیشت، دہشت گردی، انسانی حقوق اور خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں سے متعلق مسائل پر بات کر رہے ہیں۔