صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ ’مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ آج کی کوئی بھی سیاسی جماعت کبھی بھی پاکستان مخالف نہیں رہی اور نہ ہی وہ غداروں پر مشتمل ہے۔‘
انہوں نے یہ بات ’انا اور زبردستی یا انکساری اور حکمت: کون سی روش غالب آئے؟‘ کے عنوان پر اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھی ہے۔
صدر پاکستان نے اپنے کالم میں مزید لکھا: ’سب سے گزارش کرتا ہوں کہ ٹھنڈے اور گہرے سانس لیں اور سب پر زور دیتا رہا ہوں کہ موجودہ صورتحال کا حل تلاش کریں۔‘
ڈاکٹر عارف علوی کے مطابق: ’ہماری سیاسی تاریخ میں بہت سے تجربات کیے گئے اور بہت سی قلابازیاں کھائی گئیں۔ مثلاً، سیاسی جماعتوں کی ’تخلیق‘ کرنا، پھر ان کا تریاق تیار کرنا، پھر اُسے ختم کرنا، پھر ’پاکستان نواز‘ متبادل لانا، پھر اسے بھی تباہ کرنا، دباؤ ڈالنا، پھر افہام و تفہیم اور پھر مصالحت کرنا۔ یہ تمام پالیسیاں ایک سنجیدہ، وسیع البنیاد، جامع اور تزویراتی عمل کی بجائے مقتدر لوگوں کی سوچ پر مبنی تھیں۔‘
صدر پاکستان نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’موجودہ دور کی ایک شاندار مثال ایران اور سعودی عرب کے درمیان قائم ہونے والا غیرمعمولی امن ہے۔ یہ ان کی قیادت کی ایک بڑی کامیابی ہے اور اس پر محمد بن سلمان، ایرانی قیادت اور ہمارا دوست چین قابل تعریف ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ اقدام ان عظیم رہنماؤں کی سوچ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ لوگ دہائیوں پرانی دشمنی ختم کرنے پر تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا ہماری قیادت بھی ایسی ہی عظمت کا مظاہرہ کر سکتی ہے؟‘
اپنے کالم کے آخر میں انہوں نے لکھا کہ ’میں سب پر زور دیتا رہا ہوں کہ ہمیں موجودہ صورت حال کا حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انشااللہ بہتر روش ہی غالب ہوگی اور ہم در گزر کے ساتھ اپنے تنازعات کو حل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ ہمیں ابھی بہت کام کرنا ہے اور بہت سے سنہری باب لکھنے ہیں۔‘
اپنی تحریر میں صدر پاکستان نے اپنے بچپن سے لے کر جوانی اور پھر اپنی سیاسی زندگی کے تجربات اور مشاہدات بھی تحریر کیے اور ان کی بنیاد پرموجودہ سیاسی صورت حال پر تبصرہ اور حل تجویز کرنے کی کوشش کی ہے۔