لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے 72 اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے سپیکر اور الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیے اور سپیکر کو تمام اراکین کو دوبارہ سننے کے بعد فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔
عدالت کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب عام انتخابات میں چند ہی ماہ باقی ہیں اور قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم کے سوا باقی تمام قانون سازی پی ٹی آئی کی غیر موجودگی میں ہو رہی ہے۔
جہاں اس فیصلے کو پی ٹی آئی سابق وزیر اعظم ’عمران خان قومی اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر کردار ادا کریں گے‘ سے منسوب کر رہی ہے وہیں مبصرین اسے قدرے مختلف طریقے سے دیکھتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے عدالت کی ہدایت کے بعد اٹھنے والے سوالات اور پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں واپسی سے متعلق رائے جاننے کی کوشش کی کہ موجودہ صورت حال میں پی ٹی آئی کب اور کیسے قومی اسمبلی میں آ سکتی ہے؟ کیا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اسے قومی اسمبلی میں آنے سے روک سکتی ہیں؟ اور پارلیمانی قوانین اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ عدالت نے سپیکر پر ہی یہ بات چھوڑی دی ہے کہ وہ اراکین کو بلائیں، ان سے استعفوں سے متعلق پوچھیں اور فیصلہ کریں۔
’استعفوں پر فیصلے کا حتمی اختیار سپیکر کے پاس‘
احمد بلال محبوب نے کہا کہ عدالت کا یہ فیصلہ درست نہیں ہے کیونکہ قومی اسمبلی کے قوائد کے مطابق استعفوں کا فیصلہ کرنے کا حتمی اختیار صرف سپیکر کے پاس ہے۔
’سپریم کورٹ، ہائی کورٹ یا کسی بھی عدالت کو ان قوانین میں مداخلت کرنے کا اختیار نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عدالتیں کسی چیز کے آئین کے خلاف ہونے کی جانب توجہ تو دلا سکتی ہیں لیکن اسے درست کرنے کی ذمہ داری واپس پارلیمان پر عائد ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ایسی صورت حال میں ضمنی انتخابات بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ اسمبلی کی زندگی کے آخری 120 دنوں میں ایوان میں کسی خالی ہونے والی نشست کو پر نہیں کیا جا سکتا۔
’یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ استعفے واپس لے لیے جائیں گے، پارلیمانی قوائد و ضوابط میں استعفے واپس کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جج کی جانب سے یہ کہے جانے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔‘
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے 14 اپریل 2022 کو پی ٹی آئی کے 123 اراکین کے استعفے منظور کرنے کی تصدیق کی تھی، تاہم ان کے اس عمل پر قومی اسمبلی سیکریٹیڑیٹ نے اعتراض اٹھایا تھا اور استعفوں کی منظوری کا نوٹیفیکیشن الیکشن کمیشن کو نہ بھیجنے کی وجہ بھی قومی سیکرٹیریٹ کا اعتراض ہی بتائی گئی تھی۔
پارلیمانی قوائد و ضوابط کے مطابق استعفوں کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ مستعفی ہونے والے رکن کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو ایک نوٹیفکیشن بھیجتا ہے جس کے بعد ہی الیکشن کمیشن مذکورہ رکن کو ڈی نوٹیفائی کر سکتا ہے۔
قاسم خان سوری کے منظور کردہ استعفوں کو موجودہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے حلف اٹھانے کے فوری بعد دوبارہ جائزہ لینے کی رولنگ دیتے ہوئے اپنے پاس منگوا لیا تھا۔
’حکومت اور پی ٹی آئی کا اسمبلی کی تحلیل پر اتفاق ہو گیا تھا‘
احمد بلال محبوب نے کہا کہ نئے سپیکر کے آنے کے بعد ان کا استعفوں کو فوری طور پر منظور نہ کرنا سیاسی تقاضا تھا تاکہ اچانک اتنی بڑی تعداد میں ضمنی انتخابات نہ ہوں۔ لیکن پھر انہوں نے استعفے منظور کرنے شروع کر دیے۔
’اگر سپیکر کہتے ہیں کہ عدالت کے فیصلے کو آئین سے ماورا اور پارلیمانی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیں گے، تو وہ اسے ماننے سے انکار کر سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں اسمبلی عدالت کا فیصلہ آئین کے مطابق نہ ہونے سے متعلق ایک قرارداد منظور کر سکتی ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل بھی دائر کی جا سکتی ہے۔
’مجھے معلوم ہوا کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات میں اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ بھی فائنل ہو گئی تھی اور آئینی ترمیم کے لیے پی ٹی آئی اراکین کو اسمبلی میں واپس آنے کا موقعہ دیا جائے گا۔‘
انتخابی امور کے ماہر اور سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے خلاف فیصلہ دینے کا مجاز نہیں ہے اور نہ ہی سپیکر کے حکم نامے میں مداخلت کر سکتے ہیں کیونکہ دستو پاکستان کے آرٹیکل 69 کے مطابق سپیکر کی رولنگ کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ آئین میں استعفے واپس لینے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے، جب استعفے منظور ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا تو کسی عدالت کو کوئی اختیار نہیں کہ سپیکر کے کام میں مداخلت کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینئر صحافی عامر وسیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب قومی اسمبلی کی مدت میں تین ماہ سے بھی کم عرصہ باقی ہے۔
’لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے قبل سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آیا جس پر سپیکر نے عمل درآمد نہیں کیا اور ان کے آفس نے کہا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کو معطل کیا اور سپیکر کی رولنگ سے متعلق کچھ نہیں کہا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’تاہم لاہور کورٹ کے فیصلے میں سپیکر کے نوٹیفیکیشن کو بھی معطل کیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں ممکن ہے کہ حکومت یا سپیکر نظر ثانی کی درخواست دے دیں یا پھر تفصیلی حکم نامے کا بھی انتظار کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کا فورم بھی ہے لیکن ایسی صورت حال میں وہاں سے حکومت کے حق میں فیصلہ آنا مشکل نظر آ رہا ہے۔‘
عامر وسیم نے کہا کہ حکومت کو صرف اڑھائی ماہ کا وقت گزارنا ہے جبکہ پی ٹی آئی پارلیمان میں واپس جانے کے لیے بیتاب ہے کیونکہ ان کی نظر اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر ہے جس کا مقصد عبوری حکومت کے لیے مشاورت کرنا ہے۔
’قومی اسمبلی میں اس وقت فرینڈلی اپوزیشن ہے، اس وجہ سے نگران سیٹ اپ میں پی ٹی آئی کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ حکومت کبھی بھی پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں واپسی نہیں چاہے گی خاص طور پر 9 مئی کے واقعات کے بعد ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
’سینیٹ میں پی ٹی آئی کی موجودگی کی وجہ سے حکومت کو بھی قانون سازی میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں کیونکہ انہیں کافی ٹف ٹائیم دیا جاتا ہے۔
’سپیکر کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ وہ کب اراکین کو بلاتے ہیں جس میں وہ تاخیر بھی کر سکتے ہیں۔‘