پاکستان اور ایران کی سرحد پر واقع مکران کا علاقہ طویل عرصے سے ایران سے فراہم کردہ بجلی پر انحصار کرتا آ رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بجلی کی طلب بڑھنے اور رسد کم ہونے سے مقامی لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
انہی مسائل کی وجہ سے مقامی لوگوں نے بجلی کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا اور سی پیک کا مرکز قرار دیے جانے والے شہر گوادر میں تو باقاعدہ ایک تحریک ’حق دو‘ چل رہی ہے۔
اس تحریک کے ابتدائی مطالبات میں سے ایک بجلی کی فراہمی شامل تھا۔
پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ معاہدے کے بعد اب ایران سے اضافی 100 میگاواٹ ملنے سے علاقے کا یہ مسئلہ کس حد تک حل ہوسکتا ہے، یہ جاننے کے لیے ہم نے گوادر کے شہریوں سے بات کی ہے۔
آدم قادربخش گوادر شہرکے رہائشی ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بجلی کی کم فراہمی سے یہاں پرنظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے، شہر میں چھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔‘
آدم قادر بخش کے مطابق ’بجلی سے چلنے والا تمام نظام طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث متاثر ہوتا ہے۔ یہاں کے مکینوں کا بجلی کی فراہمی ایک دیرینہ مطالبہ ہے۔ امید ہے کہ ایران سے زیادہ بجلی ملنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت گوادر کو صرف 31 میگا واٹ کی ضرورت ہے۔ 100 میگاواٹ کی فراہمی سے یہ مسئلہ بخوبی حل ہوسکتا ہے۔
’بجلی نہ ہونے سے کاروباراور کولڈ سٹوریج، جہاں مچھلیوں کو رکھا جاتا ہے، ان کو نقصان کا سامنا رہتا ہے اور ہم متبادل بندوبست کرنے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔‘
آدم نے بتایا کہ ’گوادرمیں چارفیڈر ہیں تین شہر اور ایک باہر کے لیے ہے۔ تاہم ایک مسئلہ یہ ہے کہ شہر میں بجلی کی تاریں پرانی ہیں جن کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بجلی کی روانی میں خلل نہ ہو۔‘
گوادر کی ترقی کے لیے کام کرنے والے ادارے جی ڈی اے کے حکام بھی سمجھتے ہیں کہ ایران سے بجلی کی فراہمی سے ضلعے میں صنعتی پہیہ تیز ہو گا اور ترقی کی رفتار بڑھے گی۔
ادارہ ترقیات گوادر کےافسر تعلقات عامہ حفیظ اللہ بلوچ کے مطابق: ’ایران سے جو 100 میگاواٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے اس کو ایران کی طرف سے پلان گرڈ سٹیشن اور پاکستان کی طرف سے جیونی گرڈ سٹیشن کہتے ہیں۔
’اس کا معاہدہ وزیر بجلی و پانی خرم دستگیر نے ایران سے کیا تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ گھریلو استعمال اور گوادر کی صنعتوں کی ضروریات کے لیے بجلی فراہم کی جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ گوادر میں 20 ہزار ایکڑ پر صنعتی زون بن رہا ہے۔ 25 سو ایکڑ پر سینڑل بزنس ڈسٹرکٹ ہے۔ اس کی ضروریات کے لیے ابتدائی طور پر 100 میگاواٹ کا معاہدہ ہوا ہے۔
’اس کے ساتھ ساتھ کوئلے سے چلنے والا 300 میگاواٹ کا بجلی پلانٹ بھی وفاقی سطح پر منظور ہوچکا ہے جس پر کام ہونا ہے۔
’یہاں پر بجلی کا بڑا مسئلہ ہے، مکران کا پورا انحصارایران سے ملنے والی بجلی پر ہوتا ہے۔ اس اقدام سے امید ہے کہ گوادر میں کاروبار اور صنعتوں کا پہیہ چلنا شروع ہو جائے گا۔‘
حفیظ بلوچ کے مطابق: ’پچھلی دفعہ جب وزیراعظم آئے تھے تو لوگوں نے بلکہ سرمایہ کاروں نے انہیں کہا تھا کہ ہم ایسےعلاقے میں پیسہ کیوں لگائیں جہاں بجلی نہیں۔
اس پر وزیراعظم نے اپنے وزیر بجلی و پانی خرم دستگیر کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایران سے بات کر کے بجلی کی فراہمی کے لیے اقدامات کریں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت فرن زون میں کچھ صنعتیں اور کارخانے ہیں۔ ان کا کام چل رہا ہے، ان کے کام میں تیزی آجائے گی اور گوادر پورٹ جو تین مہینے سے فعال ہے اس کے کام میں تیزی ہو گی۔
’گوادر میں لوڈ شیڈنگ کا بڑا مسئلہ ہے، جو حل ہو گا۔ تاہم ابھی یہ سامنے نہیں آیا کہ بجلی 24 گھنٹے ملے گی کیوں کہ بلوں کے اور ریکوری کے مسائل ہیں لیکن جب ہم گوادر کی ترقی کی بات کرتے ہیں تو یہ بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے، جس کے حل ہونے سے اس میں بہتری آئے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سی پیک مںصوبوں پر نظر رکھنے والے صحافی عدنان عامر کا کہنا ہے کہ 100 میگا واٹ بجلی کی فراہمی سے گوادرسمیت مکران کی ضرورت پوری ہو جائیں گی۔
’تاہم ایران سے بلاتعطل بجلی کی فراہمی کے لیے ٹرانسمیشن لائن کی مرمت اور بلوں کی بروقت وصولی اور ایران کو بروقت ادائیگی کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سی پیک کے مںصوبوں میں گوادر میں 300 میگاواٹ کا پلانٹ بھی شامل تھا، جس پر کام ہونا ہے اور یہ تین سال کے عرصے میں مکمل ہو گا۔ موجودہ اقدام سے سی پیک کے منصوبوں کو تیز کرنے میں مدد ملے گی۔‘
عدنان کہتے ہیں کہ گوادرمیں آٹھ سال سے سی پیک کا مںصوبہ شروع ہے جس پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ اتنے بڑے مںصوبے کے لیے بجلی نہیں ہے۔ اب یہ تاثر ختم ہو گا۔
ایران سے اضافی بجلی کی فراہمی اور مند میں سرحدی مارکیٹ کے افتتاح کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے ایک بیان میں کہا کہ ’حکومت بلوچستان گوادرکی ترقی کے لیے پرعزم ہے اور گوادر کی موجودہ اور مستقبل کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایران سے اضافی 100میگاواٹ بجلی کی فراہمی کے منصوبے کو مکمل کر لیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بجلی کی فراہمی کے لیے ایرانی سرحد سے گوادر تک 138کلو میٹر طویل ٹرانسمیشمن لائن بچھائی گئی ہے۔
’اس اہم منصوبے کی بدولت گوادر کے گھریلو اور صنعتی صارفین کو بجلی کی بلا تعطل فراہمی یقینی ہو سکے گی۔‘