کامیاب سفارت کاری سمیت سائنس اور خلا جیسے اہم شعبوں میں سعودی عرب کا جادو مئی کے دوسرے عشرے سے سر چڑھ کر بولتا دکھائی دے رہا ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
جدہ میں ہونے والے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کے متنوع ایجنڈے کے باوجود ایک متفقہ اعلامیہ منظور کرانے پر ریاض کے ناقد اور دوست سب ہی نے بلا امتیاز مملکت کی قیادت کو مبارک باد دینے میں بخل سے کام نہیں لیا۔
عرب لیگ کے انتظامی ڈھانچے میں رکن ملکوں کو باری باری فورم کی سربراہی کے لیے مقرر کرنا عملیت پسند سوچ کا عکاس فیصلہ تھا، لیکن تاریخ کے اس اہم موڑ پر 32 ویں سربراہی اجلاس کے میزبان شہزادہ محمد بن سلمان کو عرب لیگ کی ڈرائیونگ سیٹ پیش کرنا دور رس نتائج کا حامل ایک صائب فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔
جدہ میں ہونے والے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں طویل مدت بعد شامی صدر کی شرکت اور دمشق کی عربوں کے نمائندہ فورم میں واپسی یقیناً ایک اہم پیش رفت تھی۔
یہ پہلا موقع نہیں جب عرب لیگ نے 22 رکنی فورم کے کسی ممبر ملک کی رکنیت معطل کی ہو۔
ماضی میں 26 مارچ 1979 کو، جب مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے، عرب لیگ کے ممبران نے مصر کی رکنیت معطل کر دی اور ہیڈ کوارٹر مصر سے تیونس منتقل کر دیا گیا۔
1989 میں مصر کی رکنیت دوبارہ بحال کی گئی اور 1990 میں عرب لیگ کا صدر دفتر دوبارہ قاہرہ میں منتقل کر دیا گیا۔
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی عرب سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بطور خاص جدہ آئے۔
تاہم اس مرتبہ وہ اہم علاقائی عرب فورم پر داد سیاست یا کوئی سرگرمی دکھانے کی بجائے مملکت میں موجود روحانیت کے سوتوں سے فیض پانے میں زیادہ مصروف دکھائی دے۔
اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سفارتی تعلقات کی پاداش میں مصر کے خلاف عرب لیگ کا راست اقدام فورم کے طے کردہ بنیادی اہداف سے گہری وابستگی کا ثبوت تھا، مسئلہ فلسطین کو ان اہداف میں ہمیشہ نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔
1972 سے 1979 کی مدت کے دوران تیسرے سیکرٹری جنرل محمد ریاض کے دور میں عرب لیگ کی سیاسی سرگرمیاں بہت زیادہ ہو گئیں اور ان سرگرمیوں کا زیادہ تر محور اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے روکنا تھا۔
ریاض میں ہونے والے سمٹ میں اگرچہ فلسطینی اتھارٹی کے معمر صدر محمود عباس شریک تو رہے لیکن شامی صدر بشار الاسد اور ان کے یوکرینی ہم منصب ولادی میر زیلنسکی جیسے نئے مہمانوں کی فورم میں موجودگی انہیں میڈیا میں وہ مقام نہ دلوا سکی جو ماضی میں ان کے حصے میں آتا رہا ہے۔
سیاسی پنڈٹ اس کی ایک وجہ تو مسئلہ فلسطین کے ساتھ عربوں کی معدوم ہوتی وابستگی کو قرار دیتے ہیں۔ ماضی میں اردن کے شدید اصرار پر تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کو عرب لیگ میں مبصر رکن کے طور پر نمائندگی دلائی گئی۔
لیکن 1994 میں وادی عربہ معاہدے پر دستخط سے عمان نے فلسطین پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کر لیا اور صہیونی ریاست سے سفارتی تعلقات استوار کر لیے۔ اس سے قبل عرب لیگ نے ایسی ہی ایک ’مجرمانہ کارروائی‘ پر مصر کی رکنیت معطل کی، لیکن اردن کسی ایسے سخت اقدام سے محفوظ رہا۔
اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے ضمن میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے اب بہہ چکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فورم میں شامل عربوں کی نظر میں اسرائیل سے تعلقات اب ’جرم‘ کا درجہ نہیں رکھتے۔
اسی نرمی سے شہ پا کر اسرائیل القدس میں مسلمانوں کے مقدسات کی بے حرمتی اور انہیں وہاں سے بے دخل کرنے کے لیے فلیگ مارچ اور نت نئے نسلی قوانین کا سہارا لے کر عالمی ضمیر کو گمراہ کرنے میں مصروف ہے۔
جدہ سمٹ میں شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے خطاب میں مسئلہ فلسطین کو فورم کے بنیادی اہداف کا اہم نقطہ قرار دیا، لیکن اس موقف سے متعلق آنے والے دنوں میں وہ کیا اقدامات کرتے ہیں، ابھی واضح نہیں۔
عرب لیگ ہو یا اسلامی تعاون تنظیم، ان فورمز کے خوشنما چارٹر اور نعرے دیکھ کر انہیں اگر علاقائی سیاست کے مائیکرو اقوام متحدہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
چھوٹا منہ بڑی بات پر محمول نہ کیا جائے تو کہنے دیجیے کہ اقوام متحدہ کے پاس اپنے فیصلوں اور قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے قوت نافذہ کا فقدان تو ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن دوسری جانب عربوں اور ملت اسلامیہ کے یہ نمائندہ علاقائی فورمز بھی اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے سے متعلق کسی کارگر میکیزم سے تاحال محروم ہیں۔
مغربی دنیا میں نیٹو اور یورپی یونین کی سرگرمیوں اور مینڈیٹ پر نظر ڈالی جائے تو ان عسکری اور علاقائی فورمز نے اپنے فیصلوں اور اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں زیادہ سنجیدگی دکھائی۔
نیٹو کا خم ٹھونک کر حالیہ دنوں میں یوکرین کی اس نہج پر پشتی بانی کرنا کہ جس سے دنیا ایک نئی عالمی جنگ کے دہانے تک آن پہنچی، ایسی ہی سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یورپی یونین بھی سیاسی، معاشی اور سفارتی اہداف سے متعلق اپنے فیصلوں میں عرب لیگ کی نسبت زیادہ سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔
عرب لیگ کی صدارت کا ہما اس مرتبہ سعودی عرب کے سر پر آن بیٹھا ہے، جس کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کی زیرک سیاست اور سفارت کاری پر نظر رکھنے والے حلقوں نے بجا طور پر عرب لیگ کو بھی ایک مؤثر پلیٹ فارم بنتا دیکھنے کی امیدیں باندھنا شروع کر دی ہیں۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اگر سعودی عرب کی میزبانی میں اسلامی ملکوں کی فوج، جس کا صدر دفتر ریاض میں قائم ہے، کو عرب لیگ کی قوت نافذہ کے ٹول کے طور پر اس اہم عرب فورم کے مینڈیٹ میں شامل کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کا یہ کارنامہ ملت اسلامیہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
اس کے لیے آئی ایم سی ٹی سی کے مینڈیٹ میں ضروری ترمیم کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران اور سعودی عرب کے درمیان معطل سفارتی تعلقات میں چین کی وساطت سے آنے والی بہتری اور توجہ اس بات کی متقاضی ہے کہ ریاض عربوں کے درمیان یمن، سوڈان اور لیبیا جیسے محاذوں پر تناؤ اور عسکری مدبھیڑ کی صورت حال پر جلد از جلد قابو پانے کے طریقوں پر غور کرے۔
اقوام متحدہ سے بھی قدیم فورم (عرب لیگ) کے از سر نو احیا کا اہم کام انجام دے کر انسانی خدمت اور ترقی کا فقید المثال فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے، اگرچہ عرب لیگ کی تاریخ میں ایسی آؤٹ آف دی باکس کامیابیوں کا انڈیکس بہت زیادہ نمایاں نہیں۔
سعودی فرمانروا عرب لیگ کو مؤثر علاقائی فورم بنانے کے لیے اگر اسے مکمل طور پر اوور ہال کرنے کا کوئی منصوبہ سامنے لاتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ رکن ملک اسے ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہوئے ان کے ہاتھ مضبوط کرنے میں پس وپیش سے کام نہیں لیں گے۔
آج خود اسرائیل جیسی قابض قوت کا دست وبازو بننے والے صہیونی فوجی پون صدی سے اپنے ہم عقیدہ انتہا پسندوں کے مظالم کا شکار بننے والی فلسطینی قوم سے اظہار ہمدردی کر کے اپنے سیاسی اور نظریاتی بزرگوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی راہ پر چل نکلے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک سابق افسر نے یروشلم کے پرانے شہر میں واقع مسجد اقصیٰ کے مراکشی دروازے (باب المغاربہ) کی سالوں پہلے چرائی گئی چابی محکمہ اسلامی اوقاف کو واپس کر کے نئی مثال قائم کی ہے۔
اسرائیلی پیراملٹری کے ریٹائرڈ افسر یائیر باراک نے بتایا کہ انہوں نے یہ چابی تب چرائی تھی جب اسرائیلی فوج شہر پر قبضہ کر رہی تھی۔
شہزادہ محمد بن سلمان عرب سربراہ اجلاس سے اپنے کلیدی خطاب میں قضیہ فلسطین کی مرکزیت کا اعتراف کر چکے ہیں۔
کامیاب سفارت کاری اور علاقائی فورم کے اعتماد سے قوت پا کر سعودی ولی عہد اگر مسلمانوں کے تیسرے مقدس حرم اور قبلہ اول کو آزاد فلسطینی ریاست کا دارلحکومت قرار دلوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب مملکت کو وژن 2030 سے خیرہ کرنے کے بعد وہ مسلمانوں کے تیسرے مقدس حرم کی خدمت کا اعزاز بھی مملکت کے نام لکھوانے میں کامیاب ہو سکیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔