حال ہی میں عالمی جریدے فوربز نے 30 سال سے کم عمر 30 افراد کی فہرست جاری کی ہے جس میں پاکستان سے بھی پانچ افراد شامل ہیں۔
ان میں ایک نام عائشہ مبارک علی کا بھی ہے جنہیں فنکار کے طور پر منتخب کیا گیا۔ کراچی کی 26 سالہ عائشہ ایک ملٹی میڈیا ویژول ٹیک آرٹسٹ ہیں۔
فوربز نے عائشہ سے رابطہ کرتے ہوئے گذشتہ تین سالوں میں ان کے ڈیجیٹل آرٹ اور فیوژن کے کام کو دیکھا اور پھر منتخب کیا۔
وہ اس فہرست میں جگہ بنانے پر بہت خوش ہیں اور مزید آگے جانا چاہتی ہیں۔
عائشہ نے کہا کہ انہوں نے کبھی یہ سب سوچا نہیں تھا۔ ’مجھے معلوم تھا کہ جو میں کر رہی ہوں اس کا اثر ہوگا اور عوام کی سمجھ میں ضرور آئے گا، لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ اتنا جلدی ہوجائے گا۔ یہ سب میرے لیے کافی غیر حقیقی سا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ فیوژن آرٹ میں مختلف قسم کے کاموں کو آپس میں ملاتے ہیں جس میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے روایتی آرٹ کے نئے زاویے تخلیق کرسکتے ہیں۔
عائشہ کے مطابق وہ جدت پسند ہیں اور چاہتی ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کی حدود کو پرکھیں اور یہی ان کا شوق ہے۔
’اس میں ضروری نہیں کہ آپ صرف مصوری یا مجسمہ سازی کریں بلکہ ان دونوں کو ملا کر بھی تخلیقی کام ہوسکتا ہے جیسے تھری ڈی پرنٹنگ وغیرہ۔‘
مصنوعی ذہانت کے آرٹ میں استعمال کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ فنکار کا کام اب کوئی مشین کرے گی۔
’یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کیمرا آیا تھا تو لوگ سوچتے تھے کہ اب مصور کیا کریں گے، لیکن انہوں نے پھر بھی کام کیا، فوٹوگرافرز آئے اور نیا کیریئر شروع ہوگیا۔
’اسی طرح مصنوعی ذہانت کے آنے سے اپنے طریقے بدلنے ہوں گے، لیکن وہ کبھی کسی فن کار کی جگہ نہیں لے سکتا۔‘
عائشہ کے آرٹ کے نمونے عالمی خلائی سٹیشن پر بھی موجود ہیں اور وہ ناسا کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ مصنوعی ذہانت سے بنا ان کا کام سپیس ایکس میں بھی گیا۔
عائشہ فلم کے ویژول آرٹ پر بھی کام کرتی ہیں، مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ مرکزی دھارے سے ہٹ کر فلمیں ہوتی ہیں کیونکہ آج فن کار کے پاس ایسے ذرائع ہیں کہ وہ انہیں استعمال کرتے ہوئے عالمی معیار کی فلمیں بنا سکیں۔
ان کو مارول یا ڈی سی فلمیں پسند آتی ہیں، جیسے ہیری پوٹر جس کی اپنی ایک دنیا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہ بھی اس طرح کے کام کریں۔
عائشہ آج کل سپیس سوٹ پر تحقیق کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا ’اس وقت دنیا میں خلا پر کافی کام ہو رہا ہے، خلا پہلے کمرشل نہیں تھی، مگر اب ہو گئی ہے تو جب خلا میں جاتے ہیں سپیس سوٹس چاہییں۔ ’مگر یہ ایک ایک ثقافتی پہچان بھی ہے۔‘
ڈیٹا فیوژن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کو کام کرنے کے لیے ڈیٹا چاہیے ہوتا ہے، مشین کو اس حساب سے تربیت دینی پڑتی ہے اس لیے پہلے ڈیٹا کلیکشن پر کام ہوتا ہے، پھر مشین لرننگ پر کام ہوتا ہے اور آخر میں مصنوعی ذہانت سے کام لیا جاتا ہے۔
’نئے افراد کو اس شعبے میں آنا چاہیے، ابھی لوگ الجھن کا شکار ہیں کہ اس کی وجہ سے ہمارا مستقبل کیا ہوگا، لیکن آرٹسٹ کو اسے دیکھنا چاہیے اور اپنے زاویے سے دیکھنا چاہیے کیونکہ یہی تو مستقبل ہے۔‘