اسلام آباد کی رہائشی راشدہ ریاض مختلف کیمیکلز کے ملاپ سے منفرد فن پارے تخلیق کرتی ہیں اور اب تک 2000 سے زائد طلبہ کو ریزن آرٹ سیکھا چکی ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے اس کام کا آغاز کیا تو وہ ایک سادہ خاتون تھیں جنہوں نے زندگی میں کبھی کوئی ملازمت نہیں کی تھی لیکن اب وہ ریزن آرٹ سے ماہانہ ’ہزاروں روپے‘ کما لیتی ہیں۔
بقول راشدہ ان کو اس کام کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا لیکن اس آرٹ کو سیکھنے کے لیے یوٹیوب کا سہارا لیا اور اس کے بعد ایک ٹریننگ حاصل کی جس کی بدولت انہوں نے یہ ریزن آرٹ سیکھ لیا ہے اور اب یہ ان کی کمائی کا بھی ذریعہ ہے۔
اسلام آباد کے ای الیون سے تعلق رکھنے والی راشدہ ریاض دو اقسام کے ’خطرناک‘ کیمیکلز کے ملاپ سے منفرد آرٹ تخلیق کرنے کا کام کرتی ہیں جس میں جدت کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔
راشدہ ریاض نے بتایا کہ بچپن سے انہیں رنگوں سے کھیلنے کا شوق تھا اس لیے انہوں نے ریزن آرٹ کا انتخاب کر کے اس کام کو شروع کیا۔ ریزن آرٹ منفرد، انوکھا اور دلکش رنگوں کے حسین امتزاج کا نام ہے یہ آرٹ ایک منفرد پینٹنگ سٹائل ہے جہاں آپ عام برش یا ایکریلک یا آئل پینٹ استعمال نہیں کرتے ہیں۔ جسے اس زمانے کی جدید پینٹنگ سمجھا جاتا ہے۔
بقول راشدہ ریاض اس آرٹ کو بنانے میں تقریباً پانچ دن لگ جاتے ہیں۔
ریزن آرٹ سے فن پارے کیسے تیار ہوتے ہیں؟
راشدہ ریاض نے بتایا کہ ریزن آرٹ بنیادی طور پر ایک خطرناک قسم کا کیمیکل ہے یہ پانی کی طرح ہوتا ہے اور اس کے دو حصے ہوتے ہیں اس کیمیکل کو آپس میں ملانے کے بعد اس کو پانچ سے چھ منٹ تک مسلسل حل کیا جاتا ہے جسے بعد میں ایک لکڑی کے بیس پر ڈالا جاتا ہے اور ہیٹ گن مشین سے ان کو بیس پر ہموار کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد چار دن تک انہیں ایک کھلی ہوا میں رکھا جاتا ہے جس سے بعد میں ایک پراڈکٹ تیار ہوتا ہے جس میں رنگ اپنی مرضی سے ڈالا جاتا ہے۔
اس آرٹ میں رنگ وہ کسٹمر کی ڈیمانڈ پر ڈالتے ہیں یعنی اس میں ہر طرح کا رنگ ڈالا جاسکتا ہے۔
ریزن آرٹ کو خطرناک آرٹ کیوں سمجھا جاتا ہے؟
راشدہ کہتی ہیں یہ آرٹ دوسرے آرٹ سے مختلف اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ یہ ایک کیمیکل سے بنتا ہے اور اس میں تھوڑی سی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔
انہوں نے وجہ بتاتے ہوئے کہا: ’کیونکہ چیزیں بناتے وقت آپ کو کھلی جگہ پر کام کرنا ہوگا جہاں پر دستانے پہن کر کام کرنا چاہیے کیونکہ اس کیمیکل میں تھوڑی احتیاط کرنی پڑتی ہے اور ماسک پہن کر کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ بناتے وقت صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اس سے جلد متاثر ہوتی ہے۔‘
بقول راشدہ اس کیمیکل کے ملاپ کے بعد آپ جو چیز چاہے اپنی مرضی سے تیار کرسکتے ہیں جیسا کہ وال ہینگنگ، میز، گھڑیاں وغیرہ۔
کیا فرنیچر میں ریزن آرٹ کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟
راشدہ ریاض کہتی ہیں کہ آج کل فرنیچر میں اس کا استعمال کافی زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ آرٹ آپ کو مارکیٹ میں نہیں ملے گا یہ صرف آپ کو آن لائن خریدنا پڑے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ریزن آرٹ سے بنائی گئیں چیزیں کافی سخت ہوتی ہیں جو آسانی سے ٹوٹتی نہیں اس لیے فرنیچر میں اس کا استعمال کافی فائدہ مند ہے اور اس لیے اس کی مانگ میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
راشدہ اپنے آرٹ کو کیسے بیچتی ہیں؟
بقول راشدہ وہ ایک سادہ خاتون ہیں اور انہیں سوشل میڈیا کے استعمال کا پتہ نہیں اس لیے اس کام کو دیکھ کر ان کی دو بیٹیاں ان کی کافی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ان کی رہنمائی ان کی بیٹیاں کرتی ہیں۔
راشدہ کہتی ہیں شروع میں ان کو اس کام کو کمائی کا ذریعہ بنانے کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا لیکن ابھی وہ اس آرٹ کو آن لائن فروخت کر رہی ہیں جس میں ان کی بیٹیاں مدد کرتی ہے۔
راشدہ ریاض اس آرٹ کو چار دن کے مختصر عرصے میں سکھاتی ہیں جس کی وہ چھ ہزار 500 روپے فیس لیتی ہیں۔ بقول راشدہ اب تک ان کے دو ہزار سے زائد طلبہ ہیں جن میں مرد وخواتین سمیت بچے بھی شامل ہیں۔
راشدہ کے مطابق ریزن آرٹ میں لوگ زیادہ تر دیوار پر لگی گھڑیوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں اس لیے وہ زیادہ تر گھڑیاں بنانے کا کام کرتی ہیں۔