پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کئی کارکنان پارٹی چیئرمین عمران خان کی نو مئی کو نیب کے ہاتھوں مبینہ کرپشن کیس میں گرفتاری کے نتیجے میں ہونے والے پر تشدد واقعات کے بعد سے جیل میں ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
ان میں سے کچھ خواتین کے بارے میں تو معلومات سامنے آئی ہیں تاہم جیلوں میں بند پی ٹی آئی کی خواتین کی کُل تعداد کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں بتایا جا رہا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ان خواتین سے جیلوں میں ناروا سلوک کیا جا رہا ہے اور انہیں تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
منگل کو انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’لاہور میں 13 اور راولپنڈی میں دو خواتین زیر حراست ہیں۔‘
ایس ایس پی انوش نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ پی ٹی آئی کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کا جوڈیشل ریمانڈ ہو چکا ہے اور ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔
خواتین کے ساتھ جیل میں ناروا سلوک کے حوالے سے انوش کا کہنا تھا: ’میں خود ان خواتین سے ملی ہوں، وہ بالکل محفوظ ہیں۔ یہ تمام بیہودہ الزامات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان خواتین کے کپڑے بھی گھر سے منگوا کر دیے گئے ہیں۔ خدیجہ شاہ کو جن ادویات کی ضرورت تھی وہ بھی انہیں فراہم کی گئی ہیں۔‘
جیل میں قید پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کینسر کی بیماری میں مبتلا رہ چکی ہیں جبکہ خدیجہ شاہ، جو ایک معروف فیشن ڈیزائنر ہیں، سابق چیف آف آرمی سٹاف کی نواسی اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کی صاحبزادی ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے جیل میں قید خواتین سے زیادتی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’جیلوں میں اگر کسی ایک خاتون سے بھی زیادتی ثابت ہوئی تو ہم اس کے جواب دہ ہوں گے۔ جن خواتین کی ضمانتیں ہو چکیں وہ اپنے گھر جا چکی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ خواتین سے زیادتی کی جو تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی جارہی ہیں وہ پرانی ہیں اور انہیں پرانی فوٹیجز کو استعمال کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
آئی جی پنجاب نے تمام پاکستانیوں سے گزارش کی کہ ایسی ٹویٹس نہ کی جائیں۔
ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ ’جیل کے اندر اور باہر کیمرے لگے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے انکشاف کیا کہ ’خواتین کی آڈیوز اور ان کی پیٹرول بم بنانے کی ویڈیوز بھی ہمارے پاس ہیں۔ اگر پانچ لوگ اکٹھے ہو جائیں، گولی چاہے ایک چلائے الزام پانچوں پر آئے گا۔‘
آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر نے بھی اس سے قبل ایک انگریزی روزنامے کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا تھا کہ پنجاب کی جیلوں میں پی ٹی آئی کی صرف سات خواتین موجود ہیں، جن میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور خدیجہ شاہ بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب کی 43 جیلوں میں سے کسی میں بھی پی ٹی آئی کی کوئی خاتون قید نہیں، سوائے سات خواتین کے جو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں خواتین وارڈ میں قید ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران ایس ایس پی انویسٹی گیشن انوش مسعود نے بھی یہ کہا کہ خواتین کی بیرکوں میں صرف خواتین سٹاف ہی تعینات ہیں اور کسی مرد کو وہاں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خواتین کے لیے ڈاکٹرز اور ماہر نفسیات کی سہولت بھی موجود ہے اور اگر وہ پڑھنا چاہتی ہں تو انہیں لائبریری کی سہولت بھی دی گئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وہ اراکین جو جیل سے باہر ہیں، ان سے رابطہ کرنا موجودہ سیاسی صورت حال میں انتہائی مشکل ہے، اسی لیے پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کے رکن انتظار حسین پنجوتھہ سے رابطہ کیا گیا۔
ایڈوکیٹ انتظار حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جیلوں میں قید پی ٹی آئی کی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے، جن میں ڈاکٹر یاسمین راشد، عالیہ حمزہ، طیبہ راجہ اور بیشتر شامل ہیں۔‘
انتظار حسین نے مزید بتایا کہ ’ہمیں اس وقت یہ مسئلہ درپیش ہے کہ پارٹی کی ساری تنظیم بکھری ہوئی ہے، سب اپنی اپنی جانب چل رہے ہیں، اس لیے ہمارے پاس کوئی حتمی نمبر نہیں ہے کہ کتنی خواتین اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمارا ایک سرسری اندازہ یہ ہے کہ اس وقت کم از کم ہزاروں کی تعداد میں ہماری خواتین سلاخوں کے پیچھے ہیں۔‘
ایڈووکیٹ انتظار حسین نے کہا: ’میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ جیلوں میں ہماری خواتین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا کیونکہ اگر وفاقی وزیر داخہ رانا ثنا اللہ خود شور مچا رہے ہیں کہ خواتین کے ریپ ہوئے ہیں اور اس طرح کا ڈرامہ کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہاں سامنے لانے کو بہت کچھ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کو بطور ڈھال استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کو ہراساں کر کے، بلیک میل کر کے ان کی وفاداریاں تبدیل کی جا رہی ہیں۔‘