حکومت نے معلوم کیا کہ آڈیو کون لیک کر رہا ہے؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس عطا بندیال نے کہا ہے کہ کیا حکومت نے اپنے تمام وسائل لگا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں، اور یہ کون کر رہا ہے؟

سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی کارروائی پر حکم امتناع برقرار رکھتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی (اے ایف پی)

ججز کی آڈیو لیکس پر حکومت کی بینچ پر اعتراض کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے، پہلے ان آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر بعد میں کہا اب ان آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا، ’سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں، کیا حکومت نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کون کر رہا ہے؟‘

اسلام آباد سپریم کورٹ میں منگل کو سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے کہا، ’کیا ہم میڈیا اور پیمرا سے ریکارڈ منگوا کر آپ کو شرمندہ کریں؟ حقائق جانے بغیر ججز کی تضحیک کی گئی، کیا حکومت نے آڈیوز کے حوالے سے کام کیا ہے؟ آڈیوز کو پلانٹ کیا گیا، حکومت کے پاس وسائل ہیں کہ تعین کر سکے کس نے پلانٹ کیا۔‘

عدالت نے ججز پر اعتراضات کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ کمیشن کی کارروائی پر حکم امتناع برقرار رکھتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ 

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور گذشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ کس پوائنٹ پر بات کرنا چاہیں گے؟ آپ ایک چیز مس کر رہے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے، مفروضے کی بنیاد پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کر سکتا، اس کیس میں چیف جسٹس دستیاب تھے جنہیں کمیشن کے قیام پر آگاہ نہیں کیا گیا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا، ان نکات پر آپ دلائل دیں، آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھیں۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا آپ اس پوائنٹ پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے تین ججز متنازع ہیں؟ اگر اس پر جاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہو گا کہ آپ نے کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ ہم میں سے تین کا کنفلکٹ ہے، میں چاہوں گا آپ دوسروں سے زیادہ اہم ایشو پر فوکس کریں، دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے بینچ پر اعتراضات کے حکومتی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ججز کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت جج اپنے رشتہ دار یا عزیز کا مقدمہ نہیں سن سکتا۔ مبینہ لیکس میں ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوش دامن کی ہے۔‘

جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ ’آپ کی متفرق درخواست ہے کہ کچھ ججز کیس سننے سے معذرت کر لیں۔ پہلے ججز کے خلاف اعتراضات کی درخواست پر فیصلہ ہوگا۔ کیا وفاقی حکومت کو آڈیو کے مصدقہ ہونے کا یقین ہے؟ آڈیو مصدقہ ہیں یہ وفاقی حکومت خود نہیں جانتی۔‘

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ’کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظر میں درست ہیں؟ کسی بھی سائل نے جج تبدیل کرانا ہو تو ایک آڈیو بنا کر لیک کروا دے گا، اکثر سائلین خود پیش ہوتے ہیں کیس نہ بنتا ہو تو جج پر الزام لگا دیتے ہیں، کیا ایسے موقع پر جج نظام انصاف کو دیکھے یا اٹھ کر چلا جائے اور کیس نہ سنے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حقائق جاننے کے لیے ہی تو کمیشن بنایا گیا ہے۔‘

جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ ’آپ کی متفرق درخواست ہے کہ کچھ جج کیس سننے سے معذرت کر جائیں۔ پہلے ججز کے خلاف اعتراضات کی درخواست پر فیصلہ ہو گا۔ کیا وفاق کو علم نہیں کہ آڈیوز مصدقہ ہیں یا نہیں؟

سینیئر رکنِ کابینہ نے تو اس پر پریس کانفرنس بھی کر دی، کیا یہ درست نہیں کہ وزیر داخلہ ان آڈیوز پر پریس کانفرنس کر چکے، پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز چلا بھی دی گئیں، کیا قانونی طور پر درست ہے جسے آڈیوز کی حقیقت کا نہیں پتہ وہ بینچ پر اعتراض اٹھائے۔‘ 

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا پوچھ رہا ہوں، وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی، کیا ایسی لاپروائی کا مظاہرہ کیا جا سکتا؟ ایسے بیان کے بعد تو اس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہو جاتا۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’کیا ایک وزیر کا بیان پوری حکومت کا بیان لیا جا سکتا ہے؟ میرے علم میں نہیں اگر اخباری کانفرنس کسی نے کی۔ عدالت یہ دیکھے کہ وزیر داخلہ کا بیان نو مئی سے پہلے یا بعد کا ہے۔‘

 

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اتنے اہم ایشو پر کابینہ کا اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی، وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات، یہاں بیان اہم ایشو پر دیا گیا۔‘

اس موقعے پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’یہ تو بڑا آسان ہو جائے گا کسی بھی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو اس کے نام لے کر آڈیو بنا دو، کیس سے الگ ہونے کے پیھچے قانونی جواز ہوتے ہیں، یہ آپشن اس لیے نہیں ہوتا کوئی بھی آکر کہہ دے جج صاحب فلاں فلاں کیس نہ سنیں۔‘ 

اٹارنی جنرل نے ججوں کے سوالوں پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’وفاقی حکومت اسی لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے، حکومت کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی، کالز کیسے ریکارڈ کی گئی کمیشن کے ذریعے تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے گا، ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدا کی سطح پر ہے، وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز مبینہ آڈیوز ہیں، وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہیے۔‘

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں، کوئی معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر یہ نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے، اگر تمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب کسی نے تو سننا ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی بھی شخص اپنے معاملات کا خود جج نہیں ہو سکتا، ہماری اس سارے معاملہ پر کوئی بدنیتی نہیں ہے، بینچ تبدیل ہونے سے کمیشن کے خلاف عدالت آئے درخواست گزاروں کا حق متاثر نہیں ہو گا، استدعا ہے کہ بینچ تبدیلی کی درخواست کو زیر غور لائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بینچ تبدیلی پر اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد متاثرہ فریق اور درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’آڈیوز کو درست سمجھ کر کہہ دیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی، کمیشن کے قیام کے ٹی او آرز میں آڈیو ٹیپ کرنے والے کا ذکر نہیں، ساری آڈیوز پنجاب الیکشن سے متعلق سوموٹو کے بعد آنا شروع ہوئیں، سوال یہ ہے کہ یہ آڈیوز ریکارڈنگ کس نے کی؟ تمام آڈیوز ایک ہی ہیکر کے ذریعے منظر عام پر لائی گئیں۔‘

درخواست گزاز حنیف راہی نے عدالت سے کہا کہ میری توہین عدالت کی درخواست پر ابھی تک نمبر نہیں لگا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے، آپ کی درخواست پر اعتراضات ہیں تو دور کریں، آپ یہ بھی سمجھیں کہ کس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چاہتے ہیں، جج کو توہین عدالت کی درخواست فریق نہیں بنایا جا سکتا۔‘

حکم امتناعی

آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے قائم کمیشن کے قیام کے خلاف عمران خان اور دیگر نے درخواستیں دائر کی تھیں جس پر 27 مئی کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی تھی۔

عدالت نے ایک فیصلے میں کمیشن کو آئندہ سماعت تک مزید کارروائی سے روکنے کے علاوہ تحقیقاتی کمیشن کے بارے میں حکومتی نوٹیفکیشن بھی معطل کردیا تھا۔

سپریم کورٹ نے کمیشن کے حکم اور کارروائی پر آئندہ سماعت تک حکم امتناع جاری کیا تھا۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اگلی سماعت میں کہا کہ وہ عدالتی حکم کے تناظر میں کارروائی نہیں کرسکتے۔

اس کے بعد 4 جون 2023 کو سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن اور مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر اعتراضات عائد کرتے ہوئے ناقابل سماعت قرار دے دیا۔

رجسٹرار آفس نے سات اعتراضات عائد کرتے ہوئے درخواست واپس کر دی۔ ان اعتراضات میں کہا گیا کہ درخواست میں توہین آمیز زبان استعمال کی گئی، درخواست گزار نے اس بات کی نشان دہی نہیں کی کہ سپریم کورٹ کے حکم نامہ کے کس حصے کی خلاف ورزی کی گئی۔

وفاقی حکومت نے 19 مئی کو آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان بھی شامل تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان