وفاقی ترقیاتی بجٹ اجلاس پر آج ہر عام و خاص کی توجہ مرکوز رہی لیکن اس سیشن کی کوریج کے دوران کیا کچھ دیکھنے کو ملا یہ ملاحظہ فرمائیے۔
جمعرات کو جب میں ریڈ زون پہنچی تو دیکھا ایک راستے کے علاوہ پارلیمان کو جانے والے تمام راستے بند کیے گئے تھے۔
حالیہ دنوں میں یہ عمل اب معمولی محسوس ہوتا ہے تاہم انہی راستوں پر بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کی تعیناتی غیر معمولی ضرور تھی۔
سرکاری ملازمین نے گذشتہ روز سے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ بڑھتی مہنگائی کے پیش نظر پارلیمان کے باہر احتجاج کریں گے۔
سپریم کورٹ کے قریب پہنچی تو سینکڑوں افراد حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کے مطالبات دہراتے نظر آئے۔
پارلیمان کے گیٹ پر شناخت کروا کر اندر داخل ہوئی تو صحافی رضوان شہزاد نے بتایا کہ وہ کافی مشکل سے یہاں پہنچے۔ رضوان نے کہا، ’ریڈ زون بند کر کے بجٹ پیش کیا جا رہا ہے۔‘
اجلاس کے آغاز کے بعد جب سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بجٹ پیش کرنے کے لیے روسٹرم پر بلایا تو ماضی کے برعکس اپوزیشن بینچز نے ان کی آمد پر بالکل بھی آوازے نہیں کسے یا شور شرابا نہیں کیا۔ بلکہ اپوزیشن بینچز پر بیٹھے اراکین وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران یا تو بجٹ کاپیاں پڑھتے نظر آئے یا خاموشی سے کرسی پر براجمان رہے۔
ایک غیر معمولی منظر بھی دیکھنے کو ملا جب ان کی تقریر کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رکن ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ ڈیسک بجاتے نظر آئے۔
ایوان میں دوسری جانب نظر دوڑائی تو حکومتی بینچز پر 92 اراکین جبکہ اپوزیشن بینچز پر 11 اراکین نظر آئے۔ ماضی میں حکومتی اراکین کی یہ تعداد اس سے دو گنا ہوا کرتی تھی۔
اس دوران جہاں ایک جانب اسحاق ڈار کے بالکل پیچھے بیٹھے وفاقی وزیر تجارت نوید قمر سوتے نظر آئے وہیں آخری بینچز پر بیٹھے اراکین ایوان سے اٹھ کر جاتے رہے۔
حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے وفاقی بجٹ کے بائیکاٹ یا اس کے خلاف احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا لیکن اس کے باوجود ان کے اراکین نے نہ تو ایوان میں سوال اٹھائے اور نہ ہی نعرے بازی کی۔
آخر کار تقریر کے اختتام پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی سائرہ بانو اپنی نشست پر کھڑی ہوئیں اور باآواز بلند بولیں: ’کیسا بجٹ؟ یہ جعلی بجٹ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی سپیکر نے انہیں بیٹھنے کا کہا لیکن وہ پھر بھی کھڑی رہیں اور دوبارہ ’جعلی بجٹ‘ کہا اور چند لمحوں بعد بیٹھ گئیں۔ اس کے بعد اجلاس ملتوی ہو گیا۔
ساتھ ہی دوسرے ایوان میں سینیٹ کا اجلاس بھی شروع ہو گیا۔
وزیر خزانہ جیسے ہی فائنانس بل کی کاپی پیش کرنے کے لیے نشست پر کھڑے ہوئے تو اپوزیشن اراکین نے نعرے بازی شروع کر دی، لیکن یہ نعرے بازی اراکین اپنی نشستوں پر ہی بیٹھ کر کرتے رہے۔
اس دوران قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم بھی اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے اور بات کرنے کی کوشش کی، لیکن چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے انہیں بات کرنے کی اجازت نہیں دی اور ان کا مائک بند کر دیا۔
جس کے بعد دیگر اپوزیشن بشمول فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور نعرے بازی کرتے رہے۔
اسحاق ڈار کے بل پیش کرنے کے عمل کو مکمل ہونے سے چند ہی سیکنڈ قبل اپوزیشن نے ایوان سے واک آوٹ کر دیا۔ اور چیئرمین سینیٹ نے ایوان سے تجاویز مانگتے ہوئے اجلاس ملتوی کر دیا۔
سینیٹ اجلاس کے دوران کچھ غیر معمولی مناظر اس وقت دیکھنے کو ملے جب بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر دنیش کمار اسحاق ڈار کے ڈائس کے سامنے آ کھڑے ہوئے اور ’بلوچستان کو انصاف دو‘ کا نعرہ لگانے لگے۔
اس وقت وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ اپنی نشست پر مسکراتے نظر آئے۔
دونوں ایوانوں میں ہونے والی بجٹ اجلاس کی کارروائی ماضی سے قدرے مختلف نظر آئی جہاں نہ تو بجٹ کی کاپیاں پھاڑی گئیں اور نہ پلے کارڈ پکڑے اراکین شدید احتجاج کرتے نظر آئے۔
یہی دو سال قبل ہی 2021 میں قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران اراکین نے ایک دوسرے کو بجٹ کاپیاں دے ماری تھیں بلکہ ایک خاتون رکن نے دوسری رکن کو تھپڑ تک مارا تھا۔
اجلاس ملتوی ہونے کے بعد میں ایوان سے نکلی تو سائرہ بانو مل گئیں۔ بجٹ پر رد عمل دینے کو کہا تو ’عوام کی جیب خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے۔ یہ کون سا بجٹ ہے؟‘ جواب دیا اور مسکراتے ہوئے چلی گئیں۔