پاکستان میں رواں سال سیاسی کشیدگی اور ہلچل کے دوران سیاست دانوں کی پوری توجہ ایک دوسرے پر تنقید کرنے پر ہی مرکوز رہی اور بجٹ پر اپوزیشن کی جانب سے تجاویز (شیڈو بجٹ) کا کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہ آ سکا۔
اسی سیاسی دھما چوکڑی کے باعث شاید کسی کو آئندہ مالی سال (2023۔24) کے بجٹ کا خیال ہی نہیں رہا اور حزب اختلاف کی کوئی جماعت حکومتی بجٹ تجاویز کے مقابلے میں متوازی یا شیڈو بجٹ تجاویز ترتیب نہ دے سکی۔
پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعے کی شام قومی اسمبلی کے سامنے آئندہ مالی سال (2023۔24) کے لیے بجٹ تجاویز پیش کر دیں ہیں۔
اس سال کوئی سیاسی جماعت (خصوصاً حزب اختلاف) شیڈو بجٹ تجاویز پیش نہیں کر پائی۔
گذشتہ سال پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں بھونچال جیسی تبدیلیاں آئیں اور سب سے بڑی حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپوزیشن بن گئی اور حزب اختلاف کی پارٹیاں اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو گئیں۔
اکثر پارٹیاں جو پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ 2018 کے انتخابات کے بعد سے حکومت میں حصہ دار رہیں، نے پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ کر نئی اتحادی حکومت میں شمولیت اختیار کر لی۔
سال 2023 کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور اس کی چند ایک اتحادی جماعتیں حکومت مخالف احتجاجوں اور مظاہروں میں مصروف رہیں یا ان کے قائدین گرفتاریوں اور مقدمات کا سامنا کرتے رہے اور بعد ازاں پی ٹی آئی تقسیم کا شکار ہوئی۔
ایسے میں کسی سیاسی جماعت کے لیے شیڈو بجٹ کی تیاری ایک مشکل کام ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
شاید انہی سیاسی مصروفیات کے باعث موجودہ وقت کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی پاکستان تحریک انصاف مالی سال 2023۔24 کی بجٹ تجاویز کے منظر عام پر آنے سے پہلے کوئی متبادل سفارشات پیش کرنے میں ناکام رہی۔
پاکستان میں شیڈو بجٹ کی روایت
یورپی اور امریکی ملکوں کے علاوہ بعض افریقی اور ایشیائی ملکوں میں بھی شیڈو بجٹ کا پیش کیا جانا سیاسی روایات کا حصہ ہے۔
اگرچہ پاکستان میں یہ روایت بہت پرانی نہیں اور نہ ہی یہ ہماری پارلیمانی سیاست کا مستقل فیچر بن پائی ہے، تاہم پاکستان میں شیڈو بجٹ پیش کیے جاتے رہے ہیں اور اس سلسلے میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پیش پیش رہی ہیں۔
ایم کیو ایم نے اس سلسلے میں سرخیل کا کردار ادا کرتے ہوئے 13-2012 کے حکومتی بجٹ کے متوازی شیڈو بجٹ پیش کیا تھا۔
ایم کیو ایم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وزیر اعظم عمران کی جماعت پی ٹی آئی نے مالی سال 16-2015 کے لیے شیڈو بجٹ ترتیب دیا تھا، جبکہ دونوں جماعتوں نے دوسرے شیڈو بجٹ بھی پیش کیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے 18-2017 کا شیڈو بجٹ پیش کیا تھا۔
معاشی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر کے خیال میں پاکستان میں شیڈو بجٹ عام طور پر ایک سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا حصہ ہوتا ہے اور اس مرتبہ بھی حزب اختلاف کا مقصد یہی ہو گا۔
’اس سے صرف منتخب حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے اور عوام میں شیڈو بجٹ پیش کرنے والی جماعت کی واہ واہ ہو تی ہے۔‘
معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا بجٹ بنانا کوئی اتنا پیچیدہ کام نہیں بلکہ یہ ہر سال محض 10 سے 12 فیصد آمدن، چھ سے سات فیصد اخراجات اور آئی ایم ایف کی شرائط کا مجموعہ ہوتا ہے۔‘
’ایسے بجٹ کا شیڈو بجٹ بنانے سے کیا فرق پڑ جائے گا، بنانے دیں اپوزیشن کو۔‘
شیڈو بجٹ کیا ہے؟
اکثر یورپی ملکوں اور امریکہ میں منتخب حکومت کے علاوہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں متوازی حکومتیں بناتی ہیں، جنھیں شیڈو حکومت کہا جاتا ہے۔
شیڈو حکومت بینادی طور پر برطانوی نظام (ویسٹ منسٹر) کی ایجاد ہے، جو حزب اختلاف کی جماعتوں کے سینیئر رہنماوں پر مشتمل ہوتی ہے اور قائد حزب اختلاف کی سربراہی میں حکومت کے متبادل شیڈو کابینہ تشکیل دی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شیڈو حکومت میں منتخب حکومت کی طرح شیڈو وزارتیں اور شیڈو وزیر ہوتے ہیں، جن کے پاس کوئی انتظامی اختیار تو نہیں ہوتا لیکن وہ منتخب حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ متبادل پالیسیاں پیش کرتے ہیں۔
پاکستان کی طرح دنیا کے ہر ملک میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں ہر سال آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ تیار اور پیش کرتی ہیں، جو دراصل اس مخصوص سال کے دوران ممکنہ اخراجات اور آمدن کی تفصیلات بتاتا ہے۔
بجٹ کی تیاری وزارت خزانہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے جبکہ وزیر خزانہ یہ دستاویز منی بل کی صورت میں پارلیمان میں پیش کرتے ہیں۔
شیڈو حکومت میں شیڈو وزارت خزانہ اور شیڈو وزیر خزانہ بھی ہوتے ہیں، جو ہر سال آئندہ سال کے حکومتی بجٹ کے متوازی بجٹ سفارشات اور اقدامات پیش کرتے ہیں، جنھیں ’شیڈو بجٹ‘ کہا جاتا ہے۔
کئی ایک ملکوں میں شیڈو حکومت تو موجود نہیں، تاہم وہاں کی حزب اختلاف کی جماعتیں حکومتی بجٹ کے متوازی بجٹ پیش کرتی ہیں۔
دوسری طرف بعض ممالک میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ تھینک ٹینکس، سول سوسائٹی اور دوسری تنظیمیں بھی شیڈو یا متوازی بجٹ تیار کرتی ہیں، جو بعض اوقات محض سفارشات اور مطالبات کا مجموعہ بھی ہو سکتا ہے۔
شیڈو بجٹ کی تیاری میں حکومتی بجٹ سے ہی مدد لی جاتی ہے۔ تاہم اخراجات، آمدنی اور ترقیاتی کاموں کی تفصیلات مختلف ہوتی ہیں۔
معاشی تجزیہ کار مصطفیٰ نذیر احمد اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’شیڈو بجٹ حکومتی بجٹ کی طرز پر بنایا جانا چاہیے، تاہم اسے خواہشات کی فہرست سے آگے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ تمام مجوزہ اقدامات کے مناسب اخراجات کا ذکر اس کی اولین شرط ہے۔‘
شیڈو بجٹ حکومتی بجٹ سے قبل عوام کے سامنے لایا جاتا ہے تاکہ منتخب حکومت اس میں دی گئی سفارشات اور تجاویز سے مستفید ہو سکے۔