حادثے کا شکار ہونے والی آبدوز کے مسافر کون تھے؟

آبدوز میں سوار شہزادہ داؤد کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا، جو اینگرو نامی کھاد کمپنی کے مالک اور برطانیہ کے پیپلز میگزین کے مطابق برطانوی بادشاہ چارلس کے ذاتی دوستوں میں سے تھے۔

تصاویر کا یہ مجموعہ 21 جون 2023 کو تشکیل دیا گیا ہے جس میں ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے جانے والے سیاح موجود ہیں جن میں ہمیش ہارڈنگ، شہزادہ داؤد اور سلیمان داؤد، سٹاکٹن رش اور پال ہنری شامل ہیں (اے ایف پی)

جنوب مشرقی کینیڈا کی سمندری سرحد پر غرقاب ہو جانے والے بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کا نظارہ کرانے والی لاپتہ سیاحتی آبدوز میں سوار پانچ افراد میں دو پاکستانی بھی شامل تھے، جن میں سے ایک شہزادہ داؤد اور دوسرے ان کے صاحبزادے سلیمان داؤد تھے۔

شہزادہ داؤد کے خاندان والوں نے ان کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کی تھی، جبکہ اینگرو گروپ کارپوریشن نے بھی ان کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے لوگوں سے ان کی باحفاظت واپسی کے لیے دعا کی درخواست کی تھی۔شہزادہ داؤد اینگرو وائس چیئرمین تھے۔

ٹائی ٹینک کے ملبے کا نظارہ کرانے کے لیے سیاحوں کو لے جانے والی ٹائی ٹن آبدوز اوشن گیٹ نامی کمپنی کی ملکیت تھی، جو خواہش مند افراد کو ٹائی ٹینک کا ملبہ دکھانے کی مہمات ترتیب دیتی تھی۔

بحیرہ شمالی اوقیانوس کی تہہ میں موجود بحری جہاز کا ملبہ 1912 میں تباہ ہونے والے ٹائی ٹینک کا ہے، جس کی تباہی کے نتیجے میں اندازاً 1500 افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔

سیاحوں کو لے جانے والی آبدوز میں سواری کا کرایہ تقریباً سات کروڑ پاکستانی روپے فی کس تھا۔

مذکورہ آبدوز میں پانچ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی جسے غوطہ لگانے کے بعد سات گھنٹوں کے اندر دوبارہ سطح آب پر نمودار ہونا تھا۔

 

لاپتہ ہونے والی آبدوز میں سوار شہزادہ داؤد کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا، جو اینگرو نامی کھاد بنانے والے ادارے کے مالک تھے اور برطانیہ کے پیپلز میگزین کے مطابق برطانوی بادشاہ چارلس کے ذاتی دوستوں میں سے بھی تھے۔  شہزادہ داؤد بادشاہ چارلس کے بین الاقوامی خیراتی ادارے ’پرنس ٹرسٹ انٹرنیشل‘ کے بورڈ کے رکن بھی تھے اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

میگزین کے مطابق شہزادہ داؤد کے والد حسین داؤد پرنس ٹرسٹ کے بانی رکن تھے۔

امریکی ٹی وی سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق بادشاہ چارلس نے اپنی ٹیم کو انہیں لاپتہ آبدوز سے متعلق لمحہ بہ لمحہ معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی اور ایک بیان میں لاپتہ افراد کی بخیریت واپسی کے لیے دعا بھی کی تھی۔

راولپنڈی میں پیدا ہونے والے شہزادہ داؤد لمبے عرصے سے برطانیہ میں اپنی اہلیہ کرسٹین داؤد، بیٹے سلیمان داؤد اور بیٹی لینا کے ساتھ مقیم تھے۔ انہوں نے امریکہ کی فلاڈیلفیا یونیورسٹی سے گلوبل ٹیکسٹائل میں ماسٹرز اور بکنگھم یونیورسٹی برطانیہ سے وکالت کی ڈگریاں حاصل کی ہوئی تھی۔

شہزادہ داؤد غیر سرکاری تنظیم ’دی داؤد فاؤنڈیشن‘ کے سربراہ بھی تھے اور اسی فاؤنڈیشن کے تحت داؤد پبلک سکول، داؤد کالج آف انجینئرنگ اور کراچی سکول آف بزنس اینڈ لیڈر شپ چلا رہے تھے۔

کائنات میں زندگی جینے کے حوالے سے تحقیق اور اس کو پرکھنے کا شوق رکھنے والے شہزادہ داؤد 1996 سے اپنا خاندانی کاروبار سنبھال رہے تھے۔

شہزادہ داؤد ورلڈ اکنامک فورم کے تقاریب میں بھی شرکت کر چکے تھے اور 2012 میں ورلڈ اکنامک فورم کے ’ینگ گلوبل لیڈر آف دی ایئر‘ بھی منتخب ہوئے تھے۔

ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق کارپوریٹ گورننس، صنعتی گروتھ، کھاد، ٹیکسٹائل، خوراک اور توانائی کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے شہزادہ داؤد کم آمدنی والے افراد پر مشتمل انکلوسیو کاروباری ماڈل پر یقین رکھتے تھے۔

شہزادہ داؤد اور ان کی خاندان نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں مختلف شعبہ جات میں سرمایہ کاری کی تھی اور داؤد گروپ کا تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں رجسٹرڈ ہونے والی ابتدائی اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

دی داؤد فاؤنڈیشن کے مطابق شہزادہ داؤد کے دادا سیٹھ احمد داؤد تقسیم ہند سے پہلے اس وقت انڈیا کے بانٹوا نامی قصبے میں 1906 میں پیدا ہوئے تھے اور ایک معروف صنعت کار تھے تاہم انہوں نے صرف تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی اور انڈیا میں کپاس اور ٹیکسٹائل کی مہارت حاصل کی تھی۔

دی داؤد فاؤنڈیشن کے مطابق اس کے بعد سیٹھ داؤد بمبئی میں سوت کے کاروبار سے وابستہ ہو گئے اور 1933 تک یہ کمپنی انڈیا کی ملوں کو سوت سپلائی کرنے والی بڑی کمپنی بن گئی۔ بعدازاں انہوں نے کلکتہ، مدراس اور بانٹوا میں تیل کا کارخانہ بھی قائم کیا۔

تقسیم ہند کے بعد احمد داؤد خاندان سمیت پاکستان منتقل ہو گئے اور 1949 میں داؤد کارپوریشن کے نام سے پاکستان اور برطانیہ میں کاروباور کا آغاز کیا۔

انہوں نے داؤد کاٹن ملز کے نام سے پہلی ٹیکسٹائل مل 1952 میں قائم کی، جبکہ 50 اور 60 کی دہائیوں میں داؤد گروپ کے نام سے کاروبار کا آغاز کیا اور اس 2002 میں وفات کے بعد شہزادہ داؤد کے والد حسین داؤد نے کاروبار سنبھالا تھا۔ اب شہزادہ داؤد تمام کاروبار کو سنبھال رہے ہیں۔

احمد داؤد نے 1960 میں دی داؤد فاؤنڈیشن کی افتتاحی تقریب میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کو مدعو کیا تھا۔ اس تقریب سے اپنے خطاب میں انہوں نے داؤد فاؤنڈیشن کی جانب سے جامعہ کراچی کو دو لاکھ روپے عطیہ کرنے اور مشرقی پاکستان کے شہر جیسور میں سکول کی عمارت کے لیے چھ لاکھ روپے سے زیادہ رقم فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

سٹاکٹن رش

برطانوی اور امریکی میڈیا کے مطابق لاپتہ آبدوز میں سوار دیگر مسافروں میں اوشن گیٹ ایکسپڈیشنز نامی کمپنی کے چیف ایکزیکٹیو سٹاکٹن رش بھی شامل تھے جو لاپتہ آبدوز کے پائلٹ تھے۔

سٹاکٹن نے اوشن گیٹ نامی کمپنی کی بنیاد 2009 میں رکھی تھی۔ اسی کمپنی کی ایک تنظیم اوشن گیٹ فاؤنڈیشن بھی ہے اور اسی فاؤنڈیشن کے بورڈ اف ٹرسٹیز بھی ہیں۔ یہ فاؤنڈیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔

اوشن گیٹ کمپنی کے ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق رش امریکہ کے کم عمر ترین جٹ پائلٹ تب بنے جب انہوں نے یونائٹڈ ایئرلائن جٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے 1981 میں فرسٹ آفیسر کی ٹریننگ مکمل کی تھی۔

انہوں نے پہلی پرواز بطور فرسٹ آفیسر اس وقت کی جب سعودی ایئرلائن سے معاہدے کے تحت جدہ سے روانہ ہوئے اور قاہرہ، دمشق، بمبئ، لندن زیورخ اور خرتوم تک کا سفر کیا۔ اوشن گیٹ کمپنی کے مطابق رش 1984 میں مکڈونل ڈگلس کارپوریشن میں بطور فلائٹ ٹیسٹ انجینیئر بھرتی ہوگئے۔

اسی دوران انہوں نے ایڈورڈز ایئر فورس بیس میں دو سال گزارے اور وہاں پر ان کے ریڈار ٹیسٹ پروگرام میں کام کرتے رہے اور اس کے بعد اسی کمپنی میں اینٹی سیٹلائٹ پروگرام میں خدمات انجام دیتے رہے۔

اوشن گیٹ کے مطابق رش نے 1989 میں کلاس ایئر تھری کے نام سے ایک تجرباتی ایئر کرافٹ بھی بنا لیا جو اب بھی موجود ہے اور اڑان بھی بھرتا ہے۔ اسی طرح رش نے دو افراد کے لیے آبدوز بھی بنائی ہے اور اس کے ذریعے اب تک 30 کامیاب سفر کر چکے ہیں۔

اوشن گیٹ ایکسپڈیشنز کے مطابق رش نے پرنسٹن یونیورسٹی سے ایرو سپیس انجینیئرنگ میں 1984 میں ڈگری حاصل کی ہے اور برکلے ہاس سکول اف بزنس سے 1989 میں ایم بی اے کی ڈگری لی ہے۔

ہامش ہارڈنگ

لاپتہ آبدوز میں ایکشن ایوی ایشن نامی کمپنی کے چیئرمین ہامش ہارڈنگ بھی موجود تھے۔ ہامش ہارڈنگ متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں قائم ایکشن ایوی ایشن نامی کمپنی چلا رہے تھے جو دنیا کے مختلف ممالک کو کمرشل طیارے، چارٹرڈ طیاروں سمیت دیگر مختلف اقسام کے طیارے سپلائی کرتے ہیں۔

ناسا سپیس فلائٹ نامی ادارے کے مطابق ہامش ہارڈنگ 1964 میں برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے نیچرل اور کیمیکل سائنسز میں ڈگری حاصل کی تھی۔

ہارڈنگ نے ’ون مور آربٹ‘ نامی مشن کے دوران  سب سے تیز رفتاری جہاز اڑانے اور تقریباً 47  گھنٹے نارتھ اور ساؤتھ پول میں چکر لگانے کا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا تھا۔ اس جہاز نے کینیڈی سپیس سینٹر سے اڑان بھری تھی۔

اسی ادارے کے مطابق ہارڈنگ نے بحرواقیانوس میں سب سے گہرے مقام ماریانا ٹرینچ میں گئے اور وہاں 2021 میں سب سے زیادہ وقت گزارنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ماریانہ ٹرینچ تقریباً 36 ہزار فٹ گہرا ہے۔ انہوں نے یہ سفر آبدوز میں کیا تھا اور اس مشن میں ان کے ساتھ دوسرے مسافر وکٹر ویسکووا بھی موجود تھے۔

سمندر کے سب سے گہرے مقام پر جانے سے پہلے انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا بنیادی مقصد سمندروں کا مطالعہ کرنا ہے اور نیچے یہ دیکھنا ہے کہ جو آلودگی ہم پھیلا رہے ہیں وہ سمندر میں کتنی گہرائی تک جاسکتی ہے۔

اسی کے علاوہ ہارڈنگ جون 2022 میں خلا کا سفر بھی کر چکے ہیں اور اس سفر میں ان کے ساتھ پانچ دیگر ساتھی موجود تھے۔

پال ہینری نارگیولٹ

لاپتہ آبدوز میں ٹائی ٹینک کے ملبے کے ماہر سمجھے جانے والے پال ہینری بھی موجود تھے جو ٹائی ٹینک کے ملبے کا 35 مرتبہ نظارہ کر چکے تھے۔ برطانونی اخبار دی گاردین کے مطابق دنیا میں کسی دوسرے شخص نے اتنی زیادہ مرتبہ ٹائی ٹینک کے ملبے کا دورہ نہیں کیا جتنا پال ہینری نے کیا ہے۔

فرانس سے تعلق رکھنے والے 77 سالہ پال ہینری پریمیئر ایکزیبیشن، آر ایم ایس ٹائی ٹینک نامی کمپنی میں انڈر واٹر معاملات کے محقق ہیں۔ اسی ادارے کے پاس ٹائی ٹینک کے ملبے کے حقوق بھی موجود ہیں۔

فراسیسی ٹی وی فرانس24 کے مطابق پال اس سے پہلے فرانسیسی نیوی میں کمانڈر تھے اور ڈیپ ڈائیور سمیت مائن سویپر بھی تھے۔

ٹائی ٹینک کا ملبہ 1985 میں دریافت کیا گیا تھا اس کے بعد 1987 میں ریکوری ایکسپڈیشن کے سربراہ پال ہینری تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا