خصوصی سرمایہ کاری کونسل میں آرمی چیف کی شمولیت کتنی اہم؟

وزیر مملکت پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ فریم ورک کچھ ملکوں سے مشاورت کرنے کے بعد پیش کیا گیا ہے، جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور چین پاکستان کی بہت زیادہ سپورٹ کر رہے ہیں۔

24 نومبر 2022 کو پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی اسلام آباد میں ملاقات کا ایک منظر (اے ایف پی)

پاکستانی حکومت نے ملکی معیشت کو دلدل سے نکالنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کا منصوبہ بنایا ہے، جس کے تحت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، چین اور قطر پاکستان میں 50 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کریں گے۔

سرمایہ کاری بورڈ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن میں خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری لانے کے لیے سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (خصوصی سرمایہ کاری سہولیاتی کونسل) تشکیل دی گئی ہے۔

اس کونسل کے تحت تین اعلیٰ سطح کی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ ایپکس کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم کریں گے جب کہ آرمی چیف بھی اسی کمیٹی کا حصہ ہوں گے، کمیٹی کے دیگر اراکین میں وفاقی وزیر خزانہ، منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات، آئی ٹی، ٹیلی کام، قومی غذائی تحفظ، پاور، دفاع اور صنعت و پیداوار کے وزرا شامل ہیں۔

آرمی چیف کی ایپکس کمیٹی میں شمولیت کے حوالے سے وزیر مملکت پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ ’فوج کی سپورٹ کے بغیر سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی، آرمی چیف کی شمولیت سے اس فورم کی ساکھ میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

چاروں صوبوں کے وزرا بھی ایپکس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ ایپکس کمیٹی کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو کمیٹی اور عمل درآمد کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔

عمل درآمد کمیٹی کا اجلاس ہر ہفتے ہو گا جسے ایگزیکٹو کمیٹی مانیٹر کرے گی اور اس کا اجلاس ہر مہینے ہوگا۔ ایگزیکٹو کمیٹی، ایپکس کمیٹی کو اپنی رپورٹ دے گی۔ اسی طرح ایپکس کمیٹی کا اجلاس بھی ہر مہینے ہو گا۔

خلیجی ممالک نے پاکستان میں دفاع، زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

پاکستان میں سرمایہ کاری کون کرے گا؟

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ یہ فریم ورک کچھ ملکوں سے مشاورت کرنے کے بعد پیش کیا گیا ہے جن میں سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور چین پاکستان کی بہت زیادہ سپورٹ کر رہے ہیں۔

’غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے تین سیکٹرز پر توجہ دی جا رہی ہے، جن میں توانائی، معدنیات، آئی ٹی اور زراعت شامل ہیں۔ یہ تینوں سیکٹر ان ممالک کی مشاورت کے بعد منتخب کیے گئے ہیں۔‘

مصدق ملک نے مزید بتایا کہ ’سعودی عرب نے اعلیٰ سطح پر یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ 25 ارب ڈالرز کا فنڈ قائم کر رہا ہے جو صرف پاکستان کے لیے ہو گا۔ یو اے ای پاکستان میں 20 سے 22 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا پروگرام مرتب کر رہا ہے اور چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری سب کے سامنے ہے۔ 2013 سے 2018 تک چین سے پاکستان میں 30 سے 40 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے سابق چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ ہارون شریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’حکومت نے خصوصی کونسل قائم کرکے اچھا سگنل دیا ہے مگر پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوتا، ڈالر کی قیمت اوپر نیچے ہوتی رہی تو سرمایہ کار ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر چلتے رہیں گے۔‘

ہارون شریف نے مزید کہا کہ ’20 سے 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا نمبر محض سیاست کے لیے دیا گیا ہے۔ 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے لیے 15 سے 20 سال لگتے ہیں، اس کے لیے کئی منصوبے بنانے پڑتے ہیں، پاکستان کو فوری طور پر سرمایہ کاری کے لیے چلتے ہوئے سرکاری منصوبوں کو بیچنا ہو گا۔ نیشنل بینک، پی ایس او اور او جی ڈی سی ایل کے شیئرز کو فروخت کرنا ہو گا، سعودی سرمایہ کاروں کی ان اداروں میں دلچسپی ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے کراچی سے تعلق رکھنے والے بزنس مین اختیار بیگ سے اس معاملے پر گفتگو کی، جن کا کہنا تھا کہ ’خصوصی سرمایہ کاری کونسل کا قیام بہت ضروری تھا، سعودی عرب اور قطر نے پاکستان میں 10،10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے اور بڑے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کئی سال پہلے کیا تھا، مگر اس پر پیش رفت نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو ان ملکوں سے سرمایہ کاری لانے کے لیے قوانین کو تبدیل کرنا تھا، پالیسی سطح پر اصلاحات کرنا تھیں اور ٹیکس ریفارمز بھی کرنا تھیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کو سعودی عرب، یو اے ای اور قطر سے سرمایہ کاری لانے کے لیے کچھ یقین دہانیاں کروانا ہوں گی، قوانین کو تبدیل کرنا پڑے گا اور ٹیکس مراعات دینا ہوں گی۔‘

آرمی چیف کی ایپکس کمیٹی میں شمولیت کتنی اہم ہے؟

ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ ’کئی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے فوج کی سکیورٹی کلیئرنس ضروری ہوتی ہے، کئی جگہوں پر این او سی مل جاتا ہے، سکیورٹی نہیں ملتی اور بعض جگہوں پر سکیورٹی مل جاتی ہے تو این او سی نہیں ملتا۔ فوج کی سپورٹ کے بغیر سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی، آرمی چیف کی شمولیت سے اس فورم کو بڑی کریڈیبیلٹی ملی ہے، ان ممالک کے ساتھ پاکستانی فوج کے انتہائی گہرے تعلقات ہیں۔‘

اس حوالے سے ہارون شریف نے کہا کہا: ’آرمی چیف کی شمولیت سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان ہر سطح پر سنجیدہ ہے، آرمی چیف نے معیشت کی ڈیل نہیں کرنی لیکن اگر وہ ان اداروں میں اصلاحات کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ اچھی بات ہو گی۔‘

اسی طرح اختیار بیگ نے کہا کہ ’حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایپکس کمیٹی کی طرز کی کونسل تشکیل دے دی ہے، ایف اے ٹی ایف ایپکس کمیٹی میں بھی فوج کے نمائندے شامل تھے، جو سٹیٹ بینک، ایف بی آر سمیت دیگر اداروں میں جا کر اصلاحات کرواتے تھے کیونکہ یہ سرمایہ کاری بورڈ کی سطح کا کام نہیں ہے۔‘

حکومت بدلنے سے کام نہیں رکے گا

ڈاکٹر مصدق ملک نے اس تاثر کو رد کردیا کہ حکومت بدلنے سے اس کونسل کا کام رک جائے گا۔ انہوں نے کہا: ’حکومت بدلنے سے کام کیوں رکے گا؟ اگر کام اچھا ہو تو وہ چلتا رہتا ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، بجلی کے کارخانے اور موٹر ویز اس کی مثال ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ملک میں سرمایہ کاری نہیں آ رہی، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری انتظامیہ کے عمل درآمد کا طریقہ کار پیچیدہ ہو چکا ہے، وفاق اور صوبوں کے درمیان طریقہ کار میں ہم آہنگی نہیں ہے، خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے تحت ایک طریقہ کار طے کیا گیا ہے اور وفاق اور صوبوں کے سارے کام ون ونڈو آپریشن کے تحت کیے جائیں گے۔‘

اس حوالے سے ہارون شریف کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بڑی رکاوٹ پاکستان کی افسر شاہی ہے، سرمایہ کاری بورڈ کے پاس غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ڈیل کرنے کا اختیار نہیں ہے، سرمایہ کاری بورڈ، پرائیویٹائزیشن کمیشن اور سی پیک کو ملا کر ایک ادارہ قائم کیا جانا چاہیے، ان اداروں میں ماہرین اور پروفیشنلز کو تعینات کیا جائے۔‘

اسی طرح مرزا اختیار بیگ نے تجویز دی کہ ’خصوصی سرمایہ کاری مراعاتی کونسل میں اوورسیز چیمبرز آف کامرس اورر امریکن بزنس کونسل سے وابستہ کاروباری افراد کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت