صوبہ پنجاب کے موجودہ اور سابق سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں اور پینشنز میں ’قلیل‘ اضافے کے خلاف نگراں صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
اس احتجاج میں آل گورنمنٹ ایمپلایئز گرینڈ الائنس لاہور ڈویژن کے زیر اہتمام ناصر باغ سے سول سیکرٹیریٹ تک ریلی نکالی جا رہی ہے جس میں اساتذہ کی انجمن نے بھی شرکت کا اعلان کیا ہے۔
چند روز قبل صوبہ پنجاب کی نگراں حکومت نے بجٹ کا اعلان کیا ہے جس میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پینشن میں پانچ فیصد اضافے جبکہ ایک سے 22 گریڈ تک کے حاضر سروس سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
پنجاب ٹیچرزیونین کے سیکریٹری جنرل رانا لیاقت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ سول سیکرٹیریٹ کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں اور اپنا حق طلب کر رہے ہیں۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا مسئلہ کیا ہے اس حوالے سے رانا لیاقت نے بتایا: ’ہر سال سرکاری ملازم مہنگائی کی چکی میں پستا ہے اور انہیں امید ہوتی ہے کہ بجٹ آئے گا تو اسے کوئی ریلیف ملے گا۔
’اس لیے ہم سرکاری ملازم بجٹ سے پہلے اپنی آواز بلند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم نے پنجاب بھر میں پہلے دو جون کو آل گورنمنٹ ایمپلایئر گرینڈ الائنس کے تحت مظاہرے کیے۔ اس کے بعد ہم نے آٹھ اور نو جون کو ملک بھر کے سرکاری ملازمین نے اسلام آباد میں احتجاج کیا۔‘
پنجاب ٹیچرزیونین کے سیکریٹری جنرل رانا لیاقت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب صوبائی بجٹس آئے تو سندھ حکومت نے اپنے سرکاری ملازمین کو وفاق کے برابراضافہ دیا اور ہوتا بھی یہی ہے کیوں کہ ہم قومی پے سکیل میں ہوتے ہیں توبجٹ میں جو وفاقی حکومت اعلان کرتی ہے اسی کی تمام صوبے پیروی کرتے ہیں کیوں کہ ہم نے این ایف سی ایوارڈ وہاں سے لینا ہوتا ہے۔
’پنجاب کا بجٹ جب آیا تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ہوا؟ اس میں گریڈ ایک سے 22 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں سرکاری ملازمین کی تعداد 15 لاکھ کے قریب ہے جس میں پانچ لاکھ صرف سکول ملازمین ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سرکاری سکولوں میں گریڈ ایک سے 16 میں پرائمری ٹیچر، ایلیمنٹری ٹیچرز اور سیکنڈری ٹیچرز آتے ہیں ان کو 35 فیصد اضافہ دینے کی بجائے گریڈ سے ایک سے 22 تک سب کو صرف 30 فیصد اضافہ دیا ہے۔‘
رانا لیاقت نے بتایا کہ انہوں نے اس بارے میں سماجی رابطوں اور میڈٰیا کے ذریعے آواز اٹھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن جب شنوائی نہیں ہوئی تو تب انہوں نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اختر انعام دار ایک سرکاری سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ انہیں ریٹائر ہوئے نو سال بیت چکے ہیں۔ ان کے پانچ بچے ہیں جن میں سے ان پر اب بھی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ذمہ داری ہے۔
اختر انعام دار اپنی پینشن میں پانچ فیصد اضافے کے بارے میں کہتے ہیں: ’اس سے بہتر تھا حکومت اضافہ نہ کرتی۔ حکومت خود کہہ چکی ہے جب سے نئی حکومت آئی ہے مہنگائی کی شرح 40 فیصد تک بڑہی ہے۔ حکومت نے ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ مذاق کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ادویات کی قیمتیں حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ ’میں نو سال پہلے ریٹائر ہوا، تب سے اب تک مجھے میڈیکل کی مد میں صرف تین ہزار 600 روپے ملتے ہیں اور اس میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ یہ پیسے میرے اور میرے پورے خاندان کے لیے ہیں۔ ان لوگوں نے پینشنرز کے ساتھ مذاق کیا ہے جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔‘
اختر انعام دار کاکہنا تھا: ’اگر ہم پینشنرز کے پیسوں میں اضافہ نہ کرنے سے اگر حکومت کے پیسے بچتے ہیں اور وہ ان پیسوں سے ملک کو معاشی بحران سے نکال سکتی ہے تو پھر حکومت کو چاہیے ان پیسوں سے وہ ملک کو بچا لے۔‘
حکومتی موقف
تنخواہوں میں اضافے کے اس معاملے پرایڈیشنل سیکریٹری سکول ایجوکیشن قیصر رشید کا کہنا تھا کہ ’پینشن میں کٹ نہیں لگا حکومت نے ریگولیشن تبدیل کی ہے حکومت کے پاس جتنے وسائل تھے اس کے اندر رہتے ہوئے اضافہ کیا ہے۔‘
ان کا مذید کہنا تھا کہ پنجاب میں نگراں حکومت ہے اور کابینہ نے چار ماہ کے بجٹ کا اعلان کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قیصر رشید کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ہاں یہ تصور ہے کہ سرکاری ملازمت تو مل گئی اب ہم نے کیا کرنا ہے؟ سرکار نے تنخواہیں تو بڑھا دی ہیں۔ کچھ ملازمین کہتے ہیں کم بڑھی ہیں کچھ کہتے ہیں ٹھیک بڑھی ہیں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ کیا ہمارے پاس کوئی ایسا نظام بنا ہوا ہے کہ اس اضافے کو کارکردگی کے ساتھ جوڑا جا سکے؟
’عوام کو تو نہ تعلیم کی سہولت مل رہی ہے نہ میڈیکل کی تو پھر تنخواہیں بغیر کارکردگی جانچے بڑھانا کہاں تک کارگر ہو گا؟ یہ تو ملک کے قرضوں کو ہی بڑھانے کا سبب بنے گا؟‘
تعلیم کے شعبے سے وابستہ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فہد علی اس ساری صورتحال کے بارے میں کہتے ہیں: ’یہ معاملہ ترجیح کا ہے کہ آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟ پرائمری، سیکنڈری، ہائر سیکنڈری کے اساتذہ کو دیکھا جائے تو شاید فوج کے بعد سب سے زیادہ ورک فورس پنجاب کے اساتذہ کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ چھ لاکھ کے قریب اساتذہ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں پائے جاتے ہیں۔
’اس ورک فورس کو کتنی مراعات دینی ہیں یہ حکومت کی ترجیحات پر منحصر ہے۔ اس سے پہلے بھی مراعات کو اصلاحات کے نام پر ختم کیا گیا۔ پہلے مستقل ملازمین ہوا کرتے تھے، اب کانٹریکٹ پر ہوتے ہیں اس میں جاب سکیورٹی اس طرح نہیں ہوتی جس طرح مستقل ملازمین کے لیے ہوتی ہے۔‘
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فہد علی سمجھتے ہیں کہ جب حکومت بجٹ میں تنخواہیں بڑھاتی ہے تو یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ اس اضافے کا اطلاق کن ملازمین پر ہوتا ہے کیوں کہ یہ چیزیں بجٹ کے دوران زیر بحث نہیں آتیں چاہے وہ مرکزی سطح پر ہو یا صوبائی سطح پریہ چیزیں بجٹ کے اعلان کے بعد طے ہوتی ہیں۔‘