وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری نے کہا ہے کہ کراچی بندرگاہ کے کنٹینر ٹرمینل کا کنٹرول متحدہ عرب امارات کی حکومتی کمپنی کے حوالے کرنے سے نہ صرف پاکستان کو فوری طور پر خطیر رقم حاصل ہو گی بلکہ پورٹ آپریشنز میں اضافے کے ساتھ یو اے ای کی موجودگی سے عالمی مارکیٹ میں ملکی ساکھ بہتر بنے گی۔
پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان کراچی بندرگاہ کے کنٹینر ٹرمینل پر چار برتھوں کا کنٹرول یو اے ای کی حکومتی کمپنی کے حوالے کرنے کا معاہدہ طے پایا ہے جب کہ وفاقی وزیر کے مطابق یو اے ای نے دو مزید برتھ ہم سے مانگی ہیں۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ میں پریس کانفرنس کے بعد انڈپینڈنٹ اردو سے گفگتو کرتے ہوئے فیصل سبزواری نے کراچی پورٹ کو متحدہ عرب امارات کے حوالے کر دیے جانے کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے وضاحت کی کہ کراچی پورٹ کے تین ٹرمینل پر موجود 30 میں سے صرف چار برتھوں والا ایک ٹرمینل متحدہ عرب امارات کے کنٹرول میں دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی گیٹ وے ٹرمینل لمیٹڈ (کے جی ٹی ایل) کی برتھ چھ سے نو تک یو اے ای کی کمپنی کو دی گئی ہیں۔
’معاہدے کے تحت یو اے ای کراچی پورٹ ٹرسٹ کو پانچ کروڑ ڈالر فوری طور پر ادا کرے گا جب کہ اس ٹرمینل کی توسیع کے لیے آنے والے تین سے پانچ سال کے دوران 10.2 کروڑ ڈالر خرچ کرے گا۔‘
’اسی طرح کراچی پورٹ ٹرسٹ کو ہر سال 50 سے 70 لاکھ ڈالر ملنے کے علاوہ مستقبل میں پورٹ پر ٹریفک بڑھنے سے آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔‘
انہوں نے امید ظاہر کی کہ کراچی پورٹ پر عالمی مارکیٹ کے بڑے پلیئر متحدہ عرب امارات کی موجودگی کے باعث عالمی منڈیوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق مثبت تاثر جائے گا۔
گذشتہ روز کراچی پورٹ ٹرسٹ اور متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ابوظبی پورٹس گروپ (اے ڈی پی گروپ) کے درمیان کراچی گیٹ وے ٹرمینل لمیٹڈ کو چلانے کے لیے 50 سالہ معاہدہ طے پایا ہے۔
فیصل سبزواری نے کہا کہ ’اماراتی کمپنی دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے ٹرمینل کا انتظام سنبھالنے کے علاوہ اسے چلانے اور توسیع دینے کے منصوبوں میں دلچسپی رکھتی ہے جس میں ملک کی دو اہم بندرگاہوں کے درمیان ریلوے لنک کا منصوبہ بھی شامل ہے۔‘
متحدہ عرب امارات کی سرکاری ایجنسی ’وام‘ کے مطابق ابوظبی پورٹس گروپ نے کہا ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ اور کحیل ٹرمینلز کمپنی کے درمیان کراچی گیٹ کی مینجمنٹ آپریشن اور ڈیولپمنٹ کے حوالے سے 50 سالہ رعایتی معاہدے پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ پاکستانی کی وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ ہے جو کراچی پورٹ آپریشن مینجمنٹ کا نگران ہے۔ اس معاہدے میں ابوظبی پورٹس گروپ بیشتر حصص کا مالک ہو گا۔
نیوز ایجنسی کے مطابق کنٹینر سٹوریج ایریا میں اضافہ بھی کیا جائے گا۔ ٹرمینل کے تمام آپریشنز امریکی ڈالر میں طے کیے گئے ہیں۔
فیصل سبزواری کے مطابق اس معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت ابوظہبی پورٹس گروپ کراچی کنٹینر ٹرمینل پر نئی اور جدید خودکار مشینری لگائے گا۔
’دوسرے مرحلے میں ابوظہبی پورٹس گروپ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کے درمیان ریل کے ذریعے رابطے کے قیام کے علاوہ پورٹ قاسم پر انڈسٹریل پارک، کراچی پورٹ پر غیر فعال گرین ٹرمینل کو فعال بنانے اور انفراسٹکچر پر کام کرے گا۔
’اس سرمایہ کاری سے سے رائلٹی میں 12.5 فیصد تک اضافہ کی توقع ہے۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ گوادر پورٹ پر چین دس سال بعد بھی معاہدے کے برعکس انفراسٹکچر بنانے کا وعدہ وفا نہیں کر پایا تو یو اے ای معاہدے پر عمل کرے گا۔
اس پر فیصل سبزواری نے کہا: ’کراچی خود ایک بہت بڑی منڈی ہے اور اس شہر کی افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں تک رسائی ہے۔ گوادر سٹریٹجک پورٹ ہے جب کہ کراچی ایک کمرشل پورٹ ہے۔
’تو یہاں بالکل انفراسٹکچر میں بہتری آئے گی۔‘
وفاقی وزیر کے مطابق: ’کراچی بندرگاہ کے پی سی ٹی آئی پر ساڑھے تین لاکھ کنٹینرز کی ٹریفک ہے اور اس معاہدے کے بعد پہلے سات لاکھ اور بعد میں 10 لاکھ کنٹینرز ہو جائے گی۔‘
آل پاکستان شپنگ ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین عاصم صدیقی کے مطابق متحدہ عرب امارات سے معاہدے کے بعد ملک میں سرمایہ کاری اور روزگار میں اضافہ ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا : ’پورٹ پر اس طرح کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے متعدد ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور ہم اپنا کاروبار بہتر طور پر ہینڈل کر سکیں گے۔
’میرے خیال میں حکومت اس معاہدے سے سرمایہ کاری کے ساتھ ترقیاتی کاموں کو بھی ترجیحی دے رہی ہے۔ جو بہتر ہے۔‘
متحدہ عرب امارات کے وزیر توانائی سہیل المزروعی نے کہا ہے کہ انہیں رعایتی معاہدے پر دستخط کر کے خوشی ہو رہی ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ متحدہ عرب امارات پاکستان کے ساتھ تعلقات کے استحکام کے حوالے سے اپنے عہد وپیمان پابندی سے نافذ کر رہا ہے۔
کراچی پورٹ کی اہمیت
سال 1857 میں تعمیر ہونے والا کراچی پورٹ جنوبی ایشیا کی بڑی اور مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ویب سائٹ کے مطابق کراچی بندرگاہ پر سالانہ دو کروڑ 60 لاکھ ٹن سامان کی تجارت ہوتی ہے، جو پاکستان کی کل تجارت کا تقریباً 60 فیصد ہے۔
اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث کراچی بندرگاہ دنیا کی اہم آبی گزرگاہ آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے۔
بحری جہازوں کی آمد رفت کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل آبنائے ہرمز خلیج عمان اور خلیج عرب کے درمیان واقع ہے اور تقریباً 21 میل چوڑی ہے۔ اس کے شمالی ساحل پر ایران اور جنوب میں متحدہ عرب امارات اور اومان واقع ہیں۔